فائل فوٹو
فائل فوٹو

ماہانہ 2 ارب ڈالر افغانستان اسمگل کئے جانے کا انکشاف

امت نے 22 دسمبر کو خبر شائع کر دی تھی۔افغان تاجر پاکستانی روپے سے ڈالرکی خریداری کے لیے اوپن مارکیٹ سے 30 روپے تک زیادہ دے رہے ہیں۔ ملک بوستان

 

پاکستان سے  ماہانہ 2 ارب ڈالر افغانستان  اسمگل کئےجا رہے ہیں اور افغان تاجر پاکستانی روپے سے ڈالرکی خریداری کے لیے اوپن مارکیٹ سے 30 روپے تک زیادہ دے رہے ہیں۔اس بات کا انکشاف چیئرمین ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن ملک بوستان نے

کراچی پریس کلب میں چیئرمین، جنرل سیکرٹری اور دیگر ای کیپ ممبران کے ساتھ پریس  کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے  کیا۔ واضح رہے کہ امت نے 22 دسمبر کو  اس حوالے سے خبر شائع کر دی تھی۔ پریس کانفرنس میں  ملک بوستان نے سیاسی جماعتوں سے اپیل کی کہ  سیاست دان ایک میز پر بیٹھیں اور معاشی بحران حل کریں، ریاست بچائیں، ریاست ہوگی تو سیاست ہوگی۔

ڈالر قیمت 26 پیسے اضافہ
امریکی ڈالر کی قیمت 222 روپے 41 پیسے سے بڑھ کر 222 روپے 67 پیسے ہو گئی ہے۔فائل فوٹو

ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ڈالرکی دستیابی ہے

ملک بوستان نےکہا کہ سیاست اور معیشت کے بعد ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ڈالرکی دستیابی ہے، جس کا سبب افغانستان کی ڈالرکی ضرورت ہے، اندازے ہیں کہ ماہانہ 2 ارب ڈالر افغانستان جا رہے ہیں، اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان حکومت آئی تو ڈالر 155 روپےکا تھا، اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ 3 ہزار کنٹینرز درآمد کرنے والا ملک عالمی پابندیوں کے بعد 15ہزار کنٹینرز منگوا رہا ہے، افغان تاجر یہ سامان پاکستان میں فروخت کرکے بدلے میں ڈالر لے جاتے ہیں اور پاکستان سے سامان کی خریداری میں وہ سالوں سے جمع پاکستانی روپےکا استعال کرتے ہیں۔

 

افغان شہری پاکستان سے یومیہ 50 لاکھ سے 70 لاکھ ڈالر خرید رہے ہیں

ملک بوستان کا کہنا تھا کہ ڈالر افغانستان اسمگل کرنے کے لئے افغان تاجر ڈالرکی خریداری کے لیے اوپن مارکیٹ سے 30 روپے تک زیادہ دے رہے ہیں جس سے ایکسچینج کمپنیوں کے پاس اپنے صارفین کو فروخت کرنے کے لیے ڈالر نہیں ہیں، افغان شہری پاکستان سے یومیہ 50 لاکھ سے 70 لاکھ ڈالر خرید رہے ہیں، ان کے پاکستان آنے جانے پر پابندی نہیں، ایک افغان شہری کو ایک ہزار ڈالر لے جانے کی اجازت ہے جو باآسانی ملک سے لے جاتے ہیں۔

انہوں نے سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کیا کہ ملک کے پاس 6 ارب ڈالر کے زرمبادلہ ذخائر ہیں اور پاکستان کے ذمے بھاری ادائیگیاں ہیں، اس لیے سیاسی فہم کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک میز پر بیٹھیں اور معاشی بحران کو حل کریں۔

یہ بھی پڑھیں