’’پی ڈی ایم کو آئندہ الیکشن میں استعمال کرنے کا پلان‘‘

ندیم محمود:
پاکستان ڈیموکرٹیک موومنٹ (پی ڈی ایم) کو مقصد کے حصول کے باوجود نہ صرف برقرار رکھا گیا ہے۔ بلکہ اسے آئندہ عام انتخابات میں تحریک انصاف سے مقابلے کے لئے تیار بھی کیا جارہا ہے۔ ذرائع کے مطابق اتحادی حکومت میں شامل پارٹیاں اگلا الیکشن اگرچہ اپنے اپنے انتخابی نشان پر لڑیں گی۔ تاہم ان کے مابین سیٹ ایڈجسمنٹ ہوگی۔ تاکہ ایک دوسرے کا ووٹ نہ کاٹیں۔ جیسا کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے الیکشن میں ہوا۔

واضح رہے کہ ماضی کی اپوزیشن پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لئے ستمبر دو ہزار بیس میں مولانا فضل الرحمن کی زیر قیادت پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ جس کا مقصد اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک چلا کر انہیں گھر بھیجنا تھا۔ قریباً پونے دو برس تک پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے عمران حکومت کو ٹف ٹائم دیا گیا۔ جلسے جلوس ہوئے۔ لانگ مارچ کی تیاری کی گئی۔ لیکن اس کی نوبت نہیں آئی کہ دس اپریل دو ہزار بائیس کو اپوزیشن اتحاد، تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے بے دخل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ جس کے بعد پی ڈی ایم نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو ملک کا وزیر اعظم منتخب کرتے ہوئے اپنی حکومت بنائی۔ یوں آخرکار پی ڈی ایم اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب ہوئی۔ جس کے بعد خیال کیا جارہا تھا کہ اب اس اتحاد کو ختم کر دیا جائے گا۔ لیکن عمران خان کو اقتدار سے باہر کیے جانے کے آٹھ ماہ بعد بھی یہ اتحاد برقرار ہے۔

اس بارے میں ’’امت‘‘ کے رابطہ کرنے پر پی ڈی ایم کے ایک رہنما کا کہنا تھا ’’اتحاد ضرورت کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ لہذا جب تک ضرورت ہے یہ اتحاد چلے گا۔ یہ ضرورت آئندہ انتخابات کے موقع پر اور ان انتخابات کے بعد بھی رہ سکتی ہے۔ فی الحال پی ڈی ایم موجودہ اتحادی وزیر اعظم شہباز شریف کی ڈھال ہے۔ الائنس میں شامل تمام پارٹیاں وزیر اعظم کو یقین دلا چکی ہیں کہ ان کے خلاف ہر قسم کی ریشہ دوانیوں کو ناکام بنایا جائے گا۔ چاہے دباؤ قبل از وقت الیکشن کرانے کی صورت میں آئے یا کسی اور شکل میں درپیش ہو۔ اس سے اتحاد نمٹے گا۔ وزیراعظم کو کہا گیا ہے کہ وہ اور ان کی کابینہ اپنا سارا فوکس صرف امور مملکت چلانے اور مہنگائی کے خاتمے کے لئے معیشت بحالی پر رکھیں۔ اسی طرح تحریک انصاف کی جانب سے اجتجاج کے نام پر حکومت کمزور کرنے کی کوششوں کا مل کر مقابلہ کیا جائے گا‘‘۔

پی ڈی ایم ذرائع کے مطابق سوچ یہی ہے کہ آئندہ انتخابات کے موقع پر انتخابی مہم کا لائحہ عمل بھی مشترکہ طور پر تشکیل دیا جائے۔ جبکہ اتحاد میں شامل پارٹیاں ملک بھر میں ایک دوسرے سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں گی۔ جن شہروں اور حلقوں میں ایک پارٹی کمزور ہے تو وہاں دوسری پارٹی اپنا رول ادا کرے گی۔ مثلاً بلوچستان میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کمزور ہیں تو یہ صوبہ جمعیت علمائے اسلام، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) سنبھالیں گی۔ اسی طرح پنجاب میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے مابین سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو سکتی ہے۔ جبکہ خیبر پختوانخوا کے ہزارہ ڈویژن میں نون لیگ کی جڑیں مضبوط ہیں۔ جبکہ پشاور سمیت صوبے کے دیگر حصوں اور ضم ہونے والے قبائلی علاقوں میں جے یو آئی کا ووٹ بینک مضبوط ہے۔ چند پاکٹس میں پیپلز پارٹی بھی ہے۔ یوں خیبر پختون میں ان تینوں پارٹیوں کے مابین سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوسکتی ہے۔ ان میں چوتھی پارٹی اے این پی ہے۔

اگرچہ پیپلز پارٹی اور اے این پی اس وقت پی ڈی ایم میں شامل نہیں۔ لیکن وہ موجودہ اتحادی حکومت کا حصہ ہیں۔ حال ہی میں گورنر کے معاملے پر جے یو آئی کے ساتھ اے این پی تعاون کر چکی ہے۔ پی ڈی ایم ذرائع کے بقول غالب امکان یہی ہے کہ عام انتخابات کے موقع پر بھی اے این پی، پی ٹی آئی مخالف پارٹیوں کے ساتھ کھڑی ہوگی اور ان سے ہی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرے گی۔ باقی صوبہ سندھ میں دیہی علاقوں میں پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک مضبوط ہے۔ البتہ شہری علاقوں میں اتحادی پارٹیاں ایک دوسرے سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا پلان رکھتی ہیں۔

پی ڈی ایم ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ عام انتخابات جب بھی ہوتے ہیں۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ کوئی ایک پارٹی اکثریتی نشتیں لے کر تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی۔ اگر موجودہ اتحادی پارٹیاں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرکے قابل ذکر نشتیں لینے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو پھر اگلی حکومت بھی یہ مل کر بنا سکتی ہیں۔
یاد رہے کہ عمران حکومت کے خلاف تقریباً دو برس قبل بننے والے اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم میں نون لیگ، پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)، جمیعت اہل حدیث، جمیعت علمائے پاکستان، قومی پارٹی (بزنجو)، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، قومی وطن پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی شامل تھیں۔ بعد ازاں پیپلز پارٹی اور اے این پی نے پی ڈی ایم کو چھوڑ دیا۔ یہ دونوں پارٹیاں تاحال دوبارہ پی ڈی ایم کا حصہ نہیں بنی ہیں۔ تاہم اتحادی حکومت میں شامل ہیں۔ اسی طرح عمران خان سے الگ ہو نے والی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) اور ایم کیو ایم پاکستان بھی اب اتحادیوں کے ساتھ ہیں۔