کراچی،حیدرآباد کے بلدیاتی انتخابات میں کانٹے کا مقابلہ متوقع

ارشاد کھوکھر:
گزشتہ تقریباً چھ ماہ کے دوران کراچی اور حیدرآباد ڈویژن میں بلدیاتی انتخابات تین بار ملتوی ہونے کے بعد بالآخر عدالتی احکامات کی روشنی میں صوبائی حکومت 15 جنوری کو بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کیلئے مجبور ہوگئی ہے۔ تاہم اس بار بھی متحدہ قومی موومنٹ نے بلدیاتی انتخابات ملتوی کرانے کے بھرپور حربے استعمال کئے۔ لیکن عدالت کے فیصلے کے باعث پیپلز پارٹی کی قیادت نے انتخابات ملتوی ہونے کی خواہش کے باوجود بھی متحدہ کی قیادت کو انتخابات مزید ملتوی کرنے سے جواب دے دیا ہے۔

اب الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ شیڈول کے مطابق 15 جنوری کو کراچی اور حیدرآباد ڈویژن کے سولہ اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ اس بار بلدیاتی انتخابات میں مختلف جماعتوں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔ تاہم اصل مقابلہ تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے مابین ہوگا۔ جبکہ کئی علاقوں میں ٹی ایل پی کی گرفت بھی مضبوط ہے۔ اور بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے جماعت اسلامی بھی متاثر کن کمپین چلا چکی ہے۔ ووٹرز اور سپورٹرز کو متوجہ کرنے کیلئے تمام پارٹیوں نے اپنی حکمت عملی بھی ترتیب دے دی ہے۔ انتخابات پی ٹی آئی کیلئے کسی کڑے امتحان سے کم نہیں۔ کیونکہ بیساکھی چھن جانے کے بعد پی ٹی آئی کی پوزیشن خصوصاً کراچی میں خاصی متاثر ہوئی ہے۔

 

کراچی اور حیدرآباد ڈویژن کے سولہ اضلاع میں 24 جولائی کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات حکومتی اتحاد میں شامل پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت مختلف جواز پیش کرکے تین مرتبہ انتخابات ملتوی کرانے میں کامیاب ہوچکی ہیں۔ تاہم اس مرتبہ سندھ ہائی کورٹ کے واضح احکامات انتخابات کے مزید التوا کے آڑے آچکے ہیں۔ جس پر صوبائی حکومت کی قانونی ٹیم نے پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو مشورہ دیا ہے کہ اب 15 جنوری کو بلدیاتی انتخابات ملتوی کرانے کیلئے صوبائی حکومت نے کوئی انتظامی عذر پیش کیا تو وہ بھی توہین عدالت کے زمرے میں آسکتا ہے۔ کیونکہ الیکشن کمیشن کے حکام کی چیف سیکریٹری سندھ اور آئی جی سندھ پولیس سے جو میٹنگز ہوچکی ہیں۔ ان میں مذکورہ افسران نے الیکشن کمیشن کو پولیس نفری کی فراہمی سمیت دیگر انتظامات کی یقین دہانی کرادی ہے۔ اس لئے صوبائی حکومت کے پاس اب الیکشن کو مزید التوا میں ڈالنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔

Pakistani Opposition Launches March To Oust PM Khan

پیپلز پارٹی کے اعلیٰ سطح کے ذرائع نے بتایا کہ پی پی قیادت نے پہلے ہی یہ ٹارگٹ مقرر کیا تھا کہ بلدیاتی انتخابات کم از کم چھ ماہ کیلئے ملتوی کرائے جائیں۔ جس میں عملی طور پر وہ کامیاب ہوچکی ہے۔ تاہم متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت اب بھی بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے خائف ہے۔ اس نے ایک بار پھر بلدیاتی انتخابات ملتوی کرانے کی بھرپور کوشش کی۔ لیکن اس میں اتحادی جماعتوں خصوصاً پیپلز پارٹی کی قیادت نے انکار کرتے ہوئے متحدہ قیادت کو اپنی مجبوریوں سے آگاہ کردیا۔ متحدہ کی قیادت بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کیلئے جو جواز پیش کر رہی ہے۔ وہ یہ ہے کہ اسے خصوصاً کراچی کی 73 یونین کمیٹیوں کی حلقہ بندی پر اعتراضات ہیں، کہ ان یوسیز میں آبادی کی شرح زیادہ ہے اور ان یوسیز کی جو حلقہ بندی کی گئی ہے۔ اس سے ان کے سیاسی اثر رسوخ والے علاقے متاثر ہو رہے ہیں۔ اس لئے ان حلقوں میں از سر نو حلقہ بندی کی جائے۔

ذرائع نے بتایا کہ کراچی میں بلدیاتی اداروں کی حلقہ بندی سے پیپلز پارٹی کی قیادت خوش ہے۔ وہ نہیں چاہتی کہ ان حلقوں کی ازسر نو حلقہ بندی ہو۔ جس کیلئے پیر کو بلاول ہائوس میں تینوں اتحادی جماعتوں متحدہ، پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے رہنمائوں کا اجلاس ہوا۔ جس میں پیپلز پارٹی کے کو چیئرمین آصف علی زرداری، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، گورنر کامران ٹیسوری، خالد مقبول صدیقی، وسیم اختر، وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور ایاز صادق نے شرکت کی۔ اجلاس میں پیپلز پارٹی کی قیادت نے موقف اختیار کیا کہ ازسرنو حلقہ بندی کیلئے تین سے چار ماہ درکار ہوں گے۔ جبکہ عدالت کے واضح احکامات ہیں کہ 15 جنوری کو ہر صورت میں انتخابات ہونے چاہئیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ متحدہ کی قیادت بھی بخوبی سمجھتی ہے کہ موجودہ قانون کے تحت ازسر نو حلقہ بندی نہیں ہوسکتی۔ تاہم پھر بھی اس نے مہاجر ووٹرز کو متحرک کرنے کیلئے جو حکمت عملی تیار کی ہے۔ اس میں یہ بات شامل ہے کہ وہ کراچی کی حلقہ بندیوں میں ناانصافی کی بات کرتے رہیں گے۔ تاکہ انتخابات کے نتائج اگر ان کے حق میں نہ بھی آئیں تو حلقہ بندیوں کا جواز پیش کیا جائے۔ اس سلسلے میں آئندہ ایک دو روز میں متحدہ کی قیادت کا اجلاس ہوگا۔ جس کے بعد حتمی اعلان کیا جائے گا۔

ذرائع نے بتایا کہ انتخابات کے حوالے سے متحدہ کی قیادت نے مہاجر ووٹر کو متحرک کرنے کیلئے جو حکمت عملی ترتیب دی ہے۔ اس میں اردو بولنے والوں کے ساتھ ناانصافی پر زیادہ زور دیا جائے گا۔ اس میں صوبائی محکموں میں نوکریوں کا کوٹہ نہ ملنے، دیگر اضلاع و صوبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے کراچی کے ڈومیسائل بن جانے سمیت اس نوعیت کے دیگر ایشوز کو ابھارنا شامل ہے۔ متحدہ کی قیادت کو سب سے زیادہ خوف اس بات کا ہے کہ زیادہ تر اردو بولنے والے ووٹرز نے 2018ء کے عام انتخابات اور اس کے بعد ہونے والے ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف پر اعتماد ظاہر کیا ہے۔ اب کسی طرح ان ووٹرز کو پہلے کی طرح اپنی طرف متوجہ کیا جائے۔

جہاں تک تحریک انصاف کی بات ہے تو سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے سے قبل ان کیلئے صورتحال کچھ اور تھی۔ اس وقت ایم کیو ایم جب تحریک انصاف کی اتحادی جماعت تھی تو اس وقت بھی کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے مذکورہ دونوں جماعتوں کے درمیان بات چیت کا سلسلہ شروع تھا۔ جسے مذکورہ امور پر گہری نظر رکھنے والی قوتوں نے شروع کرایا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ اس وقت ان جماعتوں کے درمیان پس پردہ جو بات چیت شروع ہوئی تھی۔ اس میں یہ فارمولا سامنے آیا تھا کہ کراچی کا میئر تحریک انصاف سے ہوگا اور ڈپٹی میئر متحدہ کا بنے گا۔ جبکہ حیدرآباد میں میئر متحدہ کا اور ڈپٹی میئر تحریک انصاف کا ہوگا۔ تاہم ان جماعتوں کے درمیان اس وقت بھی بات چیت نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکی تھی۔ لیکن تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجانے کے بعد تحریک انصاف کی جو بیساکھی تھی، وہ چھن جانے کی صورت میں تحریک انصاف کی پوزیشن کافی متاثر ہوئی ہے۔

PTI wins Hangu by-election

دیکھا جائے تو شروع سے لے کر کراچی اور حیدرآباد ڈویژن میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے تحریک انصاف کی انتخابی مہم میں زیادہ دلچسپی نظر نہیں آئی۔ تاہم اب تحریک انصاف حکومت چھن جانے کے بعد اپنی مظلومیت کے پرچار پر زیادہ زور دے گی۔ جبکہ پیپلز پارٹی کی قیادت کے پاس ووٹرز کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے ماسوائے کراچی کیلئے بڑے میگا پروجیکٹس کی بنیاد رکھنے اور نئی بھرتیوں کا راگ الاپنے کے علاوہ باقی کچھ نہیں ۔

بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے پی پی قیادت نے کراچی کے سات اضلاع میں سے چار اضلاع پر زیادہ فوکس کیا ہوا ہے۔ جن میں ضلع ملیر، کیماڑی، شرقی اور ضلع جنوبی شامل ہیں۔ جس کیلئے پیپلز پارٹی کی قیادت نے اپنے مختلف رہنمائوں کو ذمہ داری سونپ دی ہے۔ ان اضلاع کی سیاسی صورتحال دیکھی جائے تو ضلع ملیر اور کیماڑی میں اصل مقابلہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے درمیان متوقع ہے۔ جبکہ ضلع شرقی میں پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور متحدہ کے درمیان سخت مقابلہ ہوگا۔ جہاں تک ضلع جنوبی کی بات ہے تو مذکورہ ضلع میں پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔

مذکورہ ضلع کے بعض علاقوں میں متحدہ کا سیاسی اثر رسوخ بھی رہا ہے۔ ضلع کورنگی میں اصل مقابلہ متحدہ قومی موومنٹ اور ٹی ایل پی کے درمیان نظر آرہا ہے۔ جبکہ ضلع وسطی میں بھی متحدہ کا اصل مقابلہ پی ٹی آئی سے ہی متوقع ہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے بھی ضلع وسطی پر زیادہ توجہ دے رکھی ہے۔ مذکورہ ضلع میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے تمام تر ذمہ داری ڈاکٹر عاصم کو دی گئی ہے۔ ضلع شرقی میں پی ٹی آئی کا پلڑا بھاری نظر آرہا ہے۔ مذکورہ ضلع میں متحدہ اور پی ٹی آئی کے درمیان مقابلہ ہے۔ تاہم پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے تمام تر ذمہ داری صوبائی وزیر سعید غنی کو سونپی ہوئی ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں جماعت اسلامی سب سے زیادہ متحرک نظر آئی ہے۔ جنہوں نے متاثر کن کمپین چلائی ہے۔

mqm workers and supporters celebrate victory in karachi lg polls at jinnah ground azizabad on december 6 2015 photo mohammad noman express

کراچی کی میئر شپ کس کے حصے میں آتی ہے؟ اس کیلئے اصل معرکہ 15 جنوری کو بلدیاتی انتخابات کے بعد ہوگا اور اس کے بعد ہی اصل جوڑ توڑ شروع ہوگی کہ کون سی جماعت کس کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ کیونکہ موجودہ حالات میں یہ بات ممکن نہیں کہ کوئی بھی ایک جماعت اس پوزیشن میں ہو کہ وہ اکیلے کراچی کی میئر شپ حاصل کرلے۔ یہی سبب ہے کہ متحدہ کی قیادت اپنی اتحادیوں پر یہ زور دے رہی ہے کہ انہیں ابھی سے یقین دہائی کرائی جائے کہ کراچی کی میئر شپ انہیں ملے گی۔

اس نوعیت کی یقین دہانی سے پیپلز پارٹی کی قیادت نے صاف انکار کر دیا ہے۔ کیونکہ اس وقت جو حکومتی اتحاد ہے، وہ فطری نہیں۔ بلکہ تمام جماعتوں کی مجبوری ہے۔ اور متحدہ کی قیادت یہ بھی سمجھتی ہے کہ جوڑ توڑ کی سیاست میں پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت زیادہ ماہر ہے اور پیپلز پارٹی کو یہ ایڈوانٹیج بھی حاصل ہے کہ ان کے پاس صوبائی حکومت بھی ہے۔ پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی یہ دیرینہ خواہش رہی ہے کہ کراچی کی میئر شپ کسی نہ کسی طرح اس مرتبہ اس کے ہاتھ لگ جائے۔ اب تک انتخابات ملتوی ہونے میں پیپلز پارٹی کی قیادت نے متحدہ کا جو ساتھ دیا ہے۔ اس کے پیچھے بھی یہی مفاد کافرما رہا ہے۔

ادھر حیدرآباد ڈویژن کے نو اضلاع میں جو بلدیاتی انتخابات ہوں گے۔ ان میں سے خصوصاً حیدرآباد کی میئر شپ پر متحدہ کی پوزیشن حاوی نظر آرہی ہے۔ تاہم دیگر آٹھ اضلاع میں ماضی کو دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی سیاسی طور پر مکمل حاوی رہی ہے۔ تاہم سیلاب اور حالیہ بارشوں کے بعد نتائج ماضی کے برعکس بھی آسکتے ہیں۔ جن میں خصو صاً ضلع دادو سرفہرست ہے۔ صوبائی حکومت نے الیکشن کمیشن کو یہ بھی درخواست کی ہے کہ ضلع دادو کی دو تحصیل جوہی اور خیرپور ناتھن شاہ میں ابھی تک سیلاب کے پانی کا اخراج نہیں ہوسکا۔ بڑی تعداد میں گائوں دیہات ابھی بھی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں اور کئی گائوں دیہات کے ایک دوسرے سے زمینی رابطہ کٹا ہوا ہے۔ اس لئے مذکورہ دونوں تحصیلوں میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کئے جائیں۔ صوبائی حکومت کے اس جواز میں کسی حد تک حقیقت دکھائی دے رہی ہے۔ تاہم اصل فیصلہ الیکشن کمیشن کو کرنا ہے۔

بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے سب سے زیادہ پریشان خود الیکشن کمیشن کے حکام ہیں۔ کیونکہ انہوں نے 24 جولائی 2022ء کو بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام انتظامات کئے تھے۔ جس میں خصوصاً کروڑوں کی تعداد میں بیلٹ پیپرز کی چھپائی بھی شامل ہے۔ وہی بیلٹ پیپرز الیکشن کمیشن کے پاس موجود ہیں۔ 15 جنوری کو ہونے والے انتخابات میں وہی بیلٹ پیپرز استعمال ہوں گے۔ الیکشن کمیشن کے حکام کو یہ فکر لاحق ہے کہ اگر انتخابات زیادہ ملتوی ہوگئے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے بیلٹ پیپرز خراب ہوجائیں اور ان کی چھپائی پر ہونے والے اخراجات ضائع ہوجائیں۔