تاجر ذاتی تنازعات میں بھی ایف آئی اے کو استعمال کر رہے ہیں.فائل فوٹو
 تاجر ذاتی تنازعات میں بھی ایف آئی اے کو استعمال کر رہے ہیں.فائل فوٹو

کرنسی اسمگلنگ کے اہم کیس دبائے جانے لگے

عمران خان :
وفاقی حکومت کی پالیسی، کرنسی اسمگلنگ اور حوالہ ہنڈی میں ملوث عناصر کے خلاف کریک ڈائون کی پالیسی کا غلط استعمال شروع کردیا گیا۔ اہم مقدمات اور انکوائریوں کی تفتیش خراب کی جانے لگی۔

مرکزی ملزمان کو ریلیف دینے کے لئے تفتیشی افسران کے تبادلے کئے جانے لگے۔ تاجروں کے درمیان لین دین کے تنازعات کا فائدہ ایف آئی اے افسران اٹھانے لگے۔ چھوٹی مچھلیوں کو فٹ کرنے کی پالیسی اپنا لی گئی ہے۔ جبکہ بڑے مگرمچھ پھر بچنے لگے۔ موبائل مارکیٹ صدر سے چلنے والے کرنسی اسمگلنگ اور حوالہ ہنڈی کے وسیع نیٹ کے خلاف تحقیقات کو بھی اسی طرح سے دبایا جا رہا ہے۔ حالانکہ اس کی درست سمت میں تحقیقات کرکے کراچی اور ملک بھر سے الیکٹرانک کے سامان کے تاجروں کا طویل عرصہ سے دبئی، ملائیشیا، سنگاپور، امریکہ اور یورپی ممالک میں چلنے والے اسمگلنگ نیٹ ورک کو بے نقاب کیا جانا ممکن ہوتا۔ تاہم درجنوں تاجروں کو کارروائی نوٹس دینے کے بعد پراسرار دبائی جا رہی ہے۔ جبکہ مرکزی ملزمان کو بھی ریلیف دے دیا گیا، جنہوں نے دوبارہ سے اپنی دکانوں پر کام شروع کردیا ہے۔

موصول ہونے والی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ برس ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل کراچی کی جانب سے ملک کی بڑی اور کراچی کی مرکزی صدر موبائل مارکیٹ میں حوالہ ہنڈی اور اسمگلنگ کے وسیع نیٹ ورک کے حوالے سے خفیہ اطلاعات ملنے پر ستمبر کے آخری عشرے میںچھاپہ مار کارروائی کے لئے ٹیم تشکیل دی گئی۔

چھاپے سے قبل جمع کی گئی معلومات کے مطابق صدر موبائل مارکیٹ کی اسٹار موبائل مارکیٹ کی چوتھی منزل پر قائم دکان نمبر 403 سے چلائے جانے والے الیکٹرانک کے سامان کی اسمگلنگ اور حوالہ ہنڈی کے نیٹ ورک ملزمان فہیم ولد عبدالجبار اور محمد یاسین کی سرپرستی میں چلایا جارہا تھا۔ مذکورہ معلومات پراس ٹیم نے جب چوتھی منزل پر قائم مو بائل شاپ پر چھاپہ مار تو وہاں ملزمان فہیم ولد عبدالجبار اور محمد یاسین کے پاس ڈیڑھ کروڑ روپے مالیت کی کرنسی اور حوالہ ہنڈی کی ادائیگیوں کے حوالے سے مواد موجود پایا گیا۔

دوران کارروائی ملزمان کے موبائل فونز کی چھان بین کی گئی جس میں واٹس ایپ پر کئی لوگوں کے ساتھ ہنڈی حوالے کی غیر قانونی ادائئیگیوں کی بات چیت، تصدیقی پیغامات اور موبائل فونز سمیت الیکٹرانک سامان کی اسمگلنگ کی کھیپوں کی سپلائی کے حوالے سے بات چیت پائی گئی، جس میں کئی دکاندار اور ڈیلرشامل تھے۔ جب چھاپہ مار پارٹی ملزم فہیم ولد عبدالجبار اور اس کے پارٹنر یاسین کی مذکورہ دکان سے مزید پوچھ گچھ کے لیے ایف آئی اے سی سی سی کراچی جانے والی تھی تو سینکڑوں افراد کا ہجوم دکان نمبر 403، فورتھ فلور اسٹار سٹی مال کراچی کے باہر جمع ہو گیا۔ جس کی سربراہی میاں محمد الیاس (صدر سٹار سٹی مال یونین) اور دیگر نے کی۔ مذکورہ ہجوم زبردستی دکان کے اندر داخل ہوا اور ایف آئی اے کی چھاپہ مار ٹیم سے کیس پراپرٹی سمیت مذکورہ بالا مجرمانہ مواد چھیننے میں کامیاب ہوگیا۔ اس دوران ملزم فہیم ولد عبدالجبار اور اس کے محمد یاسین نے بھی بھگدڑ کا فائدہ اٹھایا اور موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ تاہم ملزم فہیم ولد عبدالجبار کا موبائل چھاپہ مار پارٹی کے پاس موجود تھا۔

اس سلسلے میں پریڈی پولیس اسٹیشن صدر کراچی میں فہیم، میاں الیاس اور دیگرکے خلاف ایف آئی آر نمبر 881/2022 بھی درج کی گئی۔ انکوائری میں ملزم فہیم ولد عبدالجبار کے واٹس ایپ اور وی چیٹ میسجز کی چھان بین سے ملزم فہیم عبدالجبار کے درمیان مختلف فریقین بشمول ملزم پارس میلانی کے ساتھ کراچی سے دبئی ہنڈی حوالہ کے مختلف میسجز، وائس نوٹ، مکالمے برآمد ہوئے۔

دستاویزات کے مطابق اس چھاپے کے نتیجے میں ملنے والی شواہد کی روشنی میں ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل کراچی میں بعد ازاں باقاعدہ ایک انکوائری نمبر 56/2022 رجسٹرڈ کرکے مزید تفتیش کا آغاز کیا گیا۔ جس پر بعد ازاں نومبر 2022ء کے آخری عشرے میں ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل کراچی میں مقد مہ الزام نمبر 55/2022 درج کیا گیا جس میں میں فہیم، یاسین، الیاس اور رضوان کو نامزد کرکے اس کی تفتیش شروع کی گئی۔ تاہم حیرت انگیز طور پر جب اس پر تیزی سے تحقیقات جاری تھیں اور مرکزی ملزمان کے ساتھ رابطے میں رہنے والے درجنوں دکانداروں کی جانب سے ان کے ذریعے غیر ملکی کرنسی غیر قانونی طور پر خریدنے اور بیرون ملک سے کھیپ سے سامان منگوانے کے ثبوت سامنے آ رہے تھے کہ اس تفتیشی افسرکو کارپوریٹ کرائم سرکل سے ہٹا دیا گیا۔

اس دوران نہ تو ایف آئی اے کی جانب سے مرکزی ملزمان فہیم اور یاسین کو گرفتار کرنے کی سنجیدہ کوشش کی گئی، بلکہ انہیں ریلیف دیا گیا اور بعد ازاں وہ تین ماہ کے دوران عدالت سے ضمانت حاصل کرنے میں بھی کامیا ب ہوگئے۔ اور یوں ان سے مکمل تفتیش اب تک نہیں کی جاسکی ہے۔ اس طرح سے ایک کرنسی کی غیر قانونی خرید و فروخت، اسمگلنگ اور حوالہ ہنڈی کا طویل عرصہ سے سرگرم نیٹ ورک اب تک بے نقاب نہ کیا جاسکا۔ تازہ معلومات کے مطابق اس اسکینڈل کے مرکزی ملزمان اب دوبارہ سے ریلیف ملنے کے بعد اپنی دکانوں پر سرگرم ہوگئے ہیں ۔

ایف آئی اے ذرائع کے بقول ایئر پورٹس سے غیر قانونی طور پر غیر ملکی کرنسی کی منتقلی، اسمگلنگ اور حوالہ ہنڈی میں ملوث نیٹ ورک سے منسلک بڑے مگر مچھوں نے اپنے تعلقات اور اثر و رسوخ کی بنیاد پر چھوٹی مچھلیوں کو فٹ کروانا شروع کردیا ہے۔ تاکہ ایف آئی اے کے افسران بھی حکومت کے سامنے اپنی کارکردگی ظاہر کرسکیں۔ اس کے لئے کئی ایسے تاجروں نے ایک دوسرے کے لاکھوں روپے کے لین دین کے تنازعات کو بھی ان کارروائیوں کے ذریعے نمٹانا شروع کردیا ہے۔ جبکہ بڑی مچھلیاں اب تک ان کارروائیوں سے محفوظ ہیں۔