کارکردگی نہ دکھانے پر اکھاڑ پچھاڑ کی تیاری شروع کردی گئی، فائل فوٹو
 کارکردگی نہ دکھانے پر اکھاڑ پچھاڑ کی تیاری شروع کردی گئی، فائل فوٹو

’’کراچی میں میئر کیلیے جوڑ توڑ اہمیت اختیار کر گئی‘‘

ندیم محمود :

کراچی کے میئر کے لیے جوڑ توڑ اہمیت اختیار کرگئی ہے۔ الیکشن کمیشن پاکستان کی جانب سے مجموعی دوسو پینتیس یوسیز کے جاری کردہ نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی ترانوے سیٹیں لے کر سرفہرست رہی۔ جماعت اسلامی چھیاسی سیٹوں کے ساتھ دوسرے اور تحریک انصاف نے چالیس نشستیں لے کر تیسرا نمبر حاصل کیا۔یعنی کوئی بھی پارٹی ایک سو چوبیس کی سادہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ یوں اب دوپارٹیوں کو مل کر لوکل گورنمنٹ بنانا پڑے گی۔

ایسے میں دو سیناریو واضح ہیں۔ پہلا مضبوط سیناریو یہ ہے کہ بلدیاتی الیکشن میں دو صف اول کی پارٹیاں پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی مل کر بلدیاتی حکومت بنالیں۔ اور دوسرے سیناریو کے مطابق تحریک انصاف کے ساتھ مل کر جماعت اسلامی اپنا میئر لاسکتی ہے۔ اگرچہ جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی کے مابین واضح نظریاتی اور سیاسی اختلاف موجود ہے لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ دونوں پارٹیوں نے مل کر حکومت بنانے کے آپشن کو مسترد نہیں کیا ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کی کوشش ہے کہ وہ جماعت اسلامی کو پیپلز پارٹی کی طرف نہ جانے دے اور اپنی سیٹیں اس کے حوالے کردے۔ اس کا عندیہ پی ٹی آئی کے رہنما فردوس شمیم نقوی دے چکے ہیں۔ اگرچہ انہوں نے کسی بھی پارٹی کے ساتھ اتحاد نہ کرنے کا اعلان کیا، تاہم ساتھ ہی کہا تھاکہ اگر پی ٹی آئی کو لیڈ نہ ملی تو جماعت اسلامی کی غیر مشروط سپورٹ کریں گے۔

متذکرہ دونوں سیناریو میں اب ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ کس کے اتحاد سے معرض وجود میں آنے والی مقامی حکومت سے کراچی اور اس کے عوام کا بھلا ہوگا؟ تجزیہ کاروں کی اکثریت کا خیال ہے کہ ایسے میں پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے اتحاد سے بننے والی حکومت شہر اور اس کے عوام کے لئے زیادہ سود مندثابت ہوسکتی ہے۔ کیونکہ اس صورت میں صوبائی اور مقامی حکومتوں کے مابین مثالی ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہوسکتی ہے۔ ماضی کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت ہمیشہ اپنی مخالف پارٹی کے میئر کے لئے درد سر بنی رہی ہے۔ سابق میئرز عموماً اپنے بے اختیار ہونے اور فنڈز کی عدم دستیابی کا رونا روتے رخصت ہوتے رہے۔

اگرچہ چند ماہ پہلے ہونے والی ترامیم کے نتیجے میں پہلے کی بہ نسبت میئر کے اختیارات میں نمایاں اضافہ ہواہے، تاہم صوبائی حکومت کے پاس پھر بھی مخالف لوکل گورنمنٹ کو ستانے کے بے شمار راستے موجود ہیں۔ اگر جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی مل کر مقامی حکومت بنالیتے ہیں تو یہ خدشات معدوم ہوجائیں گے اور لوکل گورنمنٹ کو اپنی کارکردگی دکھانے کا بھرپور موقع ملے گا، جس کا فائدہ یقینا شہر اور اس کے عوام کو پہنچے گا۔

چند ماہ پہلے ہونے والی ترامیم کو سامنے رکھتے ہوئے اگر انتظامی امور کا جائزہ لیا جائے تو عباسی شہید اسپتال اور کراچی میڈیکل ڈینٹل کالج سمیت کے ایم سی کے تمام اسپتال اور تعلیمی ادارے لوکل گورنمنٹ کے حوالے کئے جاچکے ۔ اسی طرح واٹر بورڈ کا چیئرمین اب صوبائی وزیر کے بجائے میئر ہوگا۔ جبکہ ڈویلپمنٹ اتھارٹیز بھی میئر کے ماتحت ہوچکی ہیں، جن میں کے ڈی اے، ایم ڈی اے اور ایل ڈی اے شامل ہیں۔ دوسری جانب سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ ، جسے کمائی کا ایک بڑا ذریعہ قرار دیا جاتا ہے، اب میئر کے نیچے ہوگا۔ مالی امور کو دیکھا جائے تو چارجڈ پارکنگ سمیت شہر کے بیشترٹیکسز اور فیسیں بھی لوکل گورنمنٹ وصول کرسکے گی۔ آکٹرائے اینڈ ضلعی ٹیکس کے متبادل اربوں کے فنڈز اور سندھ حکومت کی طرف سے لوکل گورنمنٹ کو اربوں کی اضافی گرانٹ بھی ملے گی۔

قصہ مختصر، ترامیم کے نتیجے میں آنے والا میئر سابق میئر کے مقابلے میں کافی طاقتور ہوگا۔ لیکن اپنے ان اختیارات کا پورا فائدہ وہ تب ہی اٹھاپائے گا، جب صوبائی حکومت اس کے ساتھ تعاون کرے۔ اسی لئے تجزیہ کاروں کی جانب سے جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کی مخلوط مقامی حکومت کو کراچی اور اس کے عوام کے لئے سود مند قرار دیا جارہاہے۔ اگرچہ جماعت اسلامی کے رہنما حافظ نعیم اور پیپلز پارٹی کے صوبائی وزیر سعید غنی، دونوں نے اس امکان کو رد نہیں کیا ہے کہ دونوں پارٹیاں کراچی میں مل کر حکومت بناسکتی ہیں۔ تاہم یہ مرحلہ آنے پر سب سے اہم معاملہ یہ ہوگا کہ میئر کس کا ہو؟ اس حوالے سے اس پارٹی کا پلڑا بھاری ہوگا، جس کے پاس زیادہ سیٹیں ہوں اور دوسرے نمبر پر آنے والی پارٹی کو بظاہر ڈپٹی میئر شپ پر قناعت کرنا پڑے گا۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے اعلان کردہ نتائج کے مطابق سرفہرست پیپلز پارٹی اور دوسرے نمبر پر جماعت اسلامی ہے۔ لہٰذا یقینا اگر دونوں پارٹیوں کے مابین اتحاد کے لئے مذاکرات کا باضابطہ سلسلہ شروع ہوتا ہے تو پیپلز پارٹی اکثریتی سیٹوں کی بنیاد پر اپنا میئر لانے کا اصرار کرے گی۔دیکھنا یہ ہے کہ جماعت اسلامی اس پر آمادہ ہوتی ہے یا وہ پھر دوسرا آپشن اختیار کرتے ہوئے تحریک انصاف کے ساتھ مل کر مقامی حکومت بنانے کو ترجیح دیتی ہے۔ اس حوالے سے آج منگل کو صورتحال بڑی حد تک واضح ہوجائے گی۔

اب دوسرے سیناریو کی طرف چلتے ہیں۔ اگر جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی کے مابین اتفاق رائے نہ ہوسکا تو جماعت اسلامی یقینا تحریک انصاف کی طرف جائے گی۔ دونوں پارٹیاں مل جائیں تو جماعت اسلامی آسانی سے اپنا میئر لاسکتی ہے۔ کیونکہ پیپلز پارٹی بظاہر دوٹوک اعلان کرچکی ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے علاوہ کسی بھی پارٹی کے ساتھ اتحاد کے لیے تیار ہے۔ لہٰذا زیادہ امکان یہی ہے کہ تحریک انصاف کی طرف جماعت اسلامی ہی جائے گی۔ لیکن اس صورت میں نئے میئر کو ان ہی مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا ہوسکتا ہے، جن کا ذکر کیا جاچکاہے اور اس ممکنہ چپقلش کا خمیازہ کراچی اور اس کے عوام کو بھگتنا پڑسکتاہے۔

پیپلز پارٹی کی روایت ہے کہ وہ مخالف پارٹی کی مقامی حکومت کے لئے مشکلات کھڑی کرتی ہے۔پیپلز پارٹی کے حلقوں سے یہ سن گن ملی بھی ہے کہ اگر جماعت اسلامی، تحریک انصاف کے ساتھ مل کر حکومت بناتی ہے تو پھر مبینہ طور پر ماضی کی طرح ’’میئر کو چلنے نہیں دیا جائے گا۔‘‘