مریم نواز کے سامنے تین بڑے چیلنج، چومکھی لڑنا ہو گی

 

مریم نواز مسلم لیگ ن کی سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر کے طور پر عملا” پارٹی کی کمان سنبھال کر وطن واپس پہنچ چکی ہیں اور اپنے آبائی سیاسی گڑھ لاہور میں ایک متاثر کن استقبالیہ جلسے سے خطاب کر کے انہوں نے اپنی اس مہم کا آغاز کر دیا ہے جس کے تحت انہیں دو اہم اور بھاری بھرکم اہداف حاصل کرنے ہیں۔ اول بطور چیف آرگنائزر پارٹی کی تنظیم نو کرنا اور دوئم آئندہ انتخابات میں نواز لیگ کی فتح کے لیے انتخابی میدان میں سازگار ماحول پیدا کرنا۔ یہ دونوں اہداف کس طرح اور کس حد تک پورے ہوں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، مگر ان کے حصول کے لیے انہیں چومکھی لڑائی لڑنا پڑے گی۔ اس ساری لڑائی میں مریم نواز کو تین بڑے چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ اول ،عمران خان کی بے قابو ہوتی مقبولیت کے آگے بند باندھنا اور انتخابی میدان میں نواز لیگ کو کھویا ہوا مقام واپس دلانے کی کوشش کرنا۔ دوئم ڈالراور مہنگائی کی سپرسانک رفتار کی وجہ سے ہولناک معاشی بدحالی کے شکار عوام کو قائل کرنے کیلئے موثر بیانیہ تشکیل دینا اور سوئم پارٹی کے اندرونی اختلافات دور کرنایا ان کو خاطر میں لائے بغیر آگے بڑھنا۔مگر کیا یہ سب کچھ اتنی آسانی سے ہو پائے گا؟

اگر ہم موجودہ سیاسی حالات کا نکتہ وار جائزہ لیں تو فوری طور پر عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا توڑ کرنا بظاہر ممکن دکھائی نہیں دیتا، جنہوں نے چند ماہ سے لاہور کے زمان پارک کو پاکستانی سیاست کا محور بنا رکھا ہے، جہاں بیٹھ کر وہ 13 جماعتی حکومتی اتحاد کے خلاف جارحانہ میڈیا مہم چلا رہے ہیں۔ ان کے الزامات کی حقیقت اور جھوٹ سچ کے پیمانے پر بحث ہوسکتی ہے مگر وہ لوگوں کو یہ باور کرانے میں بڑی حد تک کامیاب دکھائی دیتے ہیں کہ وہ زخمی ٹانگ کے ساتھ تن تنہا 13 جماعتوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ویسے بھی اپوزیشن کو عوامی ہمدردی حاصل ہوتی ہے۔ رہی سہی کسر بدترین معاشی صورت حال اور جان لیوا مہنگائی نے پوری کر دی ہے اور جو لوگ رجیم چینج بیانئے کے جھانسے میں نہیں آئے تھے وہ بھی اب پچھلی حکومت کی اچھائیاں تلاش کرنے میں مصروف  نظر آتےہیں۔

نواز لیگ کے لیے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ اس بار اس کی سیاسی طاقت کے مرکز پنجاب میں عمران خان نے ڈیرے ڈال دیئے ہیں۔ وہ پنجاب جو اپنی 12 کروڑ آبادی اور قومی اسمبلی کی 141 نشستوں کے ساتھ پاکستان کی اقتداری سیاست میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے ، وہاں نواز لیگ کی مقبولیت میں پڑنے والا ڈینٹ اب شگاف کی صورت اختیار کر چکا ہے جسے پر کرنا بظاہر آسان نظر نہیں آتا۔

عمران خان تو اس لحاظ سے مطمئن دکھائی دیتے ہیں کہ بظاہر کے پی ان کے ہاتھ میں ہے جہاں ان کی جماعت مسلسل دو بار اقتدار حاصل کر چکی ہے جو کسی اور کے حصے میں اب تک نہیں آیا۔ ان کا اصل ہدف پنجاب ہی ہے جہاں اب تک کے سیاسی اعشار یے ان کے حق میں جا رہے ہیں۔ماضی قریب میں جائیں تو گذشتہ جولائی میں 17 حلقوں میں ہونے والےضمنی الیکشن میں ان کی جماعت نے 15 سیٹیں حاصل کیں باوجودیکہ مریم نواز نے خود اپنی نگرانی میں بھرپور الیکشن مہم چلائی۔ بعد میں یہ عذرلنگ پیش کیا گیا کہ ہارنے والے پی ٹی آئی کے منحرفین یا عرف عام میں "لوٹے” تھے، سو دل کی تسلی کے لئے گناہ ثواب ان کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ پھر یوں ہوا کہ 2 ماہ پہلے آٹھ حلقوں میں ہونے والے ضمنی الیکشن کی مہم میں مریم نواز سمیت کسی اہم لیگی رہنما نے دلچسمی نہ دکھائی اور نتیجہ توقع کے عین مطابق آیا جس میں عمران خان نے ایک طرح سے کلین سویپ کیا۔

اپنے سیاسی مرکز پنجاب میں نواز لیگ کو ایک اور جھٹکا حمزہ شہباز کے چند روزہ اقتدار کے خاتمے کی صورت میں ملا اور اس سارے ایپی سوڈ سے مریم نواز نےخود کو دور رکھا جس سے پارٹی میں گروپنگ کا تاثر مزید گہرا ہوا۔ پھر حال ہی میں پرویز الہی کے اعتماد کے ووٹ کے موقع پر نمبرگیم جس جادوئی انداز میں پورا ہوا، اورنواز لیگ کو اپنے سیاسی مرکز میں بدترین سبکی کا سامنا کرنا پڑا، اس سے صورت حال مزید واضح ہوگئی کہ پلوں کے نیچے سے کتنا پانی بہہ چکا ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا نواز لیگ کا سارا انحصار ہمیشہ پنجاب پر ہی رہا ہے۔ سندھ اورخیبرپختونخوا میں اس کا واجبی تنظیمی وجود موجود ہے۔ بلوچستان کی تو سیاسی حرکیات ہی مختلف ہیں ،جہاں کسی مین اسٹریم پارٹی کو کبھی فیصلہ کن حیثیت حاصل نہیں رہی۔ پیپلز پارٹی بھی کچھ برسوں سے عملا” سندھ تک محدود ہے، جسے وہ غنیمت سمجھتی ہے مگر یہ بات اب راز نہیں رہی کہ سیاسی بساط پر کامیاب چالیں چلنے کے ماہر آصف زرداری کچھ عرصے سے پنجاب میں جگہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ عمران خان کو گھر بھیجنے اور پی ڈی ایم کی حکومت بنانے میں اہم ترین کردار زرداری صاحب ہی کا ہے چنانچہ اگر وہ پنجاب کی چند سیٹوں کی صورت میں اپنی خدمات کا کچھ معاوضہ وصول کرنا چاہیں تو کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔اب یہ سمجھنا مشکل تو نہیں کہ اس صورت میں نواز لیگ کی ٹوکری سے ہی کچھ انڈے کم ہوں گے، جسے پنجاب میں اپنی سیاسی طاقت بحال کرنے کے لیے پہلے ہی مشکلات کا سامنا ہے۔

 


مریم نواز کے لیے دوسرا چیلنج اپنی جماعت کے چند بڑوں کے تحفظات دور کرنا ہے، جن کی عمر اور سیاسی تجربہ انہیں مریم نواز کی ہدایت پر کام کرنے پر آمادہ نہیں ہونے دیتا۔ شاہد خاقان عباسی اس حوالے سے سامنے آنے والی خبروں کو افواہ قرار دے چکے ہیں، مگر سیاسی مبصرین دھوئیں کی سمت میں چنگاری تلاش کرنے کی روش پر قائم ہیں۔ اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اتنے عرصے بعد مریم بی بی کی وطن واپسی پر استقبالیہ جلسے میں ان کے ترجمان محمد زبیر اور طلال چوہدری کے علاوہ پارٹی کا کوئی  اور سینئر رہنما کیوں موجود نہیں تھا۔گزشتہ کئی ماہ سے پنجاب کے سیاسی منظر نامے میں حمزہ کی غیرحاضری بھی کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ اس پر مستزاد رانا ثنا اللہ کا یہ بیان کہ مریم نواز آئندہ وزیر اعلی پنجاب کی امیدوار ہو سکتی ہیں،مبینہ اندرونی گروپ بندی کا تاثر بڑھا سکتا ہے۔
مگر ان سب سے بڑھ کر مریم نواز کے لئے اہم ترین چیلنج یہ ہے کہ موجودہ بدترین معاشی حالات اور کمر توڑ مہنگائی کے دور میں وہ کون سا جادوئی بیانیہ لائیں گی جس کی چمتکار آئندہ الیکشن میں نواز لیگ کیلئے کامیابی کے در کھول دے۔۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب ان کے سب سے قابل اعتماد انکل اسحاق ڈار نے معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے۔