نواز طاہر :
پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی سے مستعفی اراکین کی خالی نشستوں پر سولہ اور انیس مارچ کو ضنمی الیکشن ہو رہے ہیں۔ جبکہ خیبرپختون اور پنجاب کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابی معاملات عدلیہ اور انتظامیہ کے پاس زیر التوا ہیں۔
ضمنی الیکشن کے ساتھ ساتھ قومی انتخابات کی مہم بھی جاری ہے۔ پنجاب میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مسلم لیگ ن کی سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے اور تحریکِ انصاف کی سرگرمیاں زمان پارک کے ساتھ ساتھ پارٹی آفس میں بھی بڑھ گئی ہیں۔ عمران خان کے آبائی گھر زمان پارک میں کارکنوں نے ان کی کسی کیس میں ممکنہ گرفتاری کے سامنے دیوار بننے کیلیے پڑائو ڈال رکھا ہے اور پارٹی آفس میں ’ ڈبل انویسٹمنٹ‘ پالیٹیکس جاری ہے۔ ذرائع کے مطابق ضمنی الیکشن پاکستان تحریک انصاف کے سابق اراکین قومی اسمبلی کیلئے سونامی جیسے طوفان کے طور پر سامنے آیا ہے اور ان کے لئے الیکشن سے پہلے ایک کڑا امتحان ثابت ہورہا ہے۔
سابق اراکین نہ تو اپنے پرانے حلقے خالی کرسکتے ہیں اور نہ ہی وہ قلیل عرصے کیلئے دوہرے انتخابی اخراجات اٹھانے کیلئے تیار ہیں ہیں۔ لیکن انہیں واضح کیا گیا ہے کہ ضمنی الیکشن نہ لڑنے والے سابق اراکین کو اگلے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کا ٹکت ملنا یقینی نہیں ہے۔ اس پالیسی نے ایسے اراکین کو مشکلات کا شکار کیا ہے جو پارٹی کی حکومت کے دوران دہرے الیکشن کی اخراجات فراہم نہیں کرسکے تھے۔
جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک سابق وزیر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’جس طرح قومی اسمبلی کے ضمنی الیکشن قلیل عرصے کیلئے ہورہے ہیں، اگر پنجاب اسمبلی کے الیکشن بھی ایسی ہی ہوتے تو میں ضمنی الیکشن کا متحمل نہ ہوتا اور ٹکٹ کیلیے اپلائی نہ کرتا۔ پارٹی کے ساتھ کھڑا رہنا ہی پارٹی کے ساتھ وفاداری کا ثبوت ہے۔ دو، دو الیکشن کے اخراجات پارٹی سے وفاداری کا ثبوت نہیں ہونا چاہئیں۔
یہ پالیسی نقصان بھی پہنچا سکتی ہے اور خاص طور پر ہمارے جیسے لوگ تو اس کے متحمل ہو ہی نہیں سکتے، جنہوں نے اپنی ساکھ اور خاندانی وقار کی بنیاد پر الیکشن لڑنا ہوتا ہے۔ جب پی ٹی آئی کا وجود نہیں تھا تب بھی لوگ ہمیں ووٹ دیا کرتے تھے۔ اُس وقت ہم کہاں سے ووٹ لیتے تھے؟ ووٹ تو موجود تھے۔ اصل بات پارٹی کے پروگرام اور سیاسی حالات کی ہوتی ہے۔
بلاشبہ اب بھی سیاسی حالات پی ٹی آئی کے بہتر ہیں لیکن انتخابی اخراجات اس شدید ترین مہنگائی میں کون برداشت کرسکتا ہے؟ جتنے بڑے حلقے ہیں ان میں تو خالی پیٹرول ہی انتخابی اخراجات کی حد سے زیادہ خرچ ہوجائے گا۔ یہ بات پارٹی قیادت کو سمجھنا چاہئے تھی۔ اب بھی الیکشن جیت کر ہم نے کون سی وفاق میں حکومت بنا لینی ہے؟ رہنا تو اپوزیشن میں ہی ہے اور یہ بھی کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ پارٹی کے چیئرمین الیکشن کے بعد پھر سے اعلان کردیں کہ ہم نے اسمبلی میں نہیں جانا۔ اگر چہ ابھی ایسی کوئی بات نہیں ہورہی، لیکن ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا‘‘۔
دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان ضمنی الیکشن کی مہم میں بھی زمان پارک میں ہی قیام پذیر ہوںگے۔ عدالت سے انہوں نے حاضری کی معافی کی درخواست کررکھی ہے اور وہ انتخابی مہم میں باہر نکل کر آئے روز عدالت میں پیش نہیں ہونا چاہتے، کیونکہ اس سے انہیں حاضری سے استثنیٰ ختم ہونے کا اندیشہ رہے گا۔ واضح رہے کہ عدالت نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی طبی بنیادوں پر حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کررکھی ہے۔ جبکہ ان پر فرد جرم عائد ہونا ہے ۔
ادھر پاکستان مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے وطن واپسی کے بعد سیاسی سرگرمیاں بلا تعطل جاری رکھی ہوئی ہیں۔ جبکہ مسلم لیگ ن کی اتحادی پی ڈی ایم کی جماعتیں پنجاب کی حد تک قابلِ ذکر حد تک متحرک نہیں۔ لیکن کچھ حلقوں میں متحرک ہوںگی۔ یہ جماعتیں پنجاب سے باہر دیگر صوبوں میں اپنا اہم کردار ادا کریں گی۔ البتہ خیبر پختون میں دس سے زائد ایسی نشستیں بھی ہیں، جن میں یہ جماعتیں اپنے امیدوار نہیں کھڑے کریں گی۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس وقت سبھی سیاسی جماعتیں ایک طرح سے بند گلی میں ہیں۔
پاکستان استقلال پارٹی کے سربراہ سید منظور علی گیلانی کے مطابق سیاسی جماعتوں کے بند گلی میں ہونے کی کوئی نہیں متعدد وجوہ ہیں۔ پی ڈی ایم ملکی معیشت اور بڑھتی مہنگائی کے باعث اپنے اور ووٹر کے درمیان دیوار محسوس کرتی ہے۔ حالانکہ ان معاشی حالات کی ذمہ دار پی ڈی ایم نہیں، عمران خان کی سیاست ہے۔ انہوں نے غلط سیاسی فیصلے کرکے اپنی جماعت کو بھی مشکلات میں ڈال دیا ہے، بلکہ ایک طرح سے نقصان پہنچایا ہے اور سب سے بڑی غلطی اسمبلی سے باہر آنے کی ہے۔ پہلے قومی اسمبلی سے باہر تو بعد میں خود ہی اپنی دو صوبائی حکومتیں بھی ختم کروادیں۔ جبکہ ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ حکومت ختم ہونے کا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ سبھی ووٹر بھی ختم ہوگئے۔
ووٹر نے تو پوری مدت کیلیے مینڈیٹ دیا تھا۔ یہ درست ہے کہ مقررہ وقت میں الیکشن ہونا چاہئیں اور معامملہ عدالت میں بھی ز یر التوا ہے، سبھی کی نظریں ادھر ہی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے؟ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ عدالت، آئین کے ساتھ ساتھ حالات و واقعات پر بھی غور کرسکتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں سید منظور گیلانی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت ہے۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اس کے ووٹ کم یا زیادہ ہوئے ہیں، یہ تو پولنگ بتائے گی۔ البتہ یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ عمران خان کی پوزیشن پہلے جیسی نہیں رہی، وہ مشکات کا سامنا کرسکتے ہیں۔ ان کے قول و فعل کی رو سے ان کے حق میں عوام کی پہلے جیسی رائے دکھائی نہیں دیتی۔ اور آنے والے دنوں میں اس میں مزید فرق آنا بھی خارج ا ز امکان نہیں۔ اس میں اہم کردار ان کی سیاسی انداز اور سوچ کا جس میں پختگی کی ضرورت ہے۔