آواز سے دل میں اتر جانے والےضیاء محی الدین ۔آفتاب اقبال کااظہارعقیدت

صاحب تحریر

عربی کے لفظ ‘محی’ کا اگر قریب ترین اردو ترجمہ کیا جائے تو ‘زندہ کرنے والا’ یا ‘حیات دینے والا’ بنتا ہے۔

اگرچہ یہ خدائی صفت ہے مگر اسی نام کی تاثیر کے اعجاز سے ضیاء محی الدین نے ثابت کیا کہ وہ اپنی آواز سے بے جان لفظوں کو زندگی بخش سکتے ہیں۔

اپنے منفرد آہنگ سے، بے حس حروف کو، احساس کی لطافت دینے والے ضیاء محی الدین کا احسان ہے کہ انہوں نے ہم کم زبانوں کو یہ یقین دلایا کہ صوت و سماع کے امکانات ابھی ختم نہیں ہوئے ہیں اور اس کائنات کی حدیں لامتناہی ہیں۔

انہوں نے ہی سکھایا کہ اپنی آواز کو اور ڈھونڈو۔

اور اٹھائو۔

اور جوڑو۔

جذبوں سے، حقیقتوں سے، دل سے۔

کتنے ہی مصنفوں کی تحریریں، افسانے، نظمیں، اشعار، خاکے اور مکالمے صرف اس لیے سمجھ آئے کیونکہ انہیں ضیاء محی الدین کی آواز میں سنا تھا۔ کتاب، رسالے یا اخبار میں ان کو پڑھ کر تفہیم کا وہ درجہ نہیں ملا تھا جو  ضیاء محی الدین کی آواز میں سُن کر حاصل ہوا۔

یہ عجیب اتفاق ہے کہ ریڈیو کے عالمی دن پر، جس کا حسُن ہی آواز سے تخیل کی جادونگری تعمیر کرنا ہے، ضیاء محی الدین ہمیں آواز کے ورثے کا لافانی ورثہ سونپ کر راہی ملک عدم ہو چلے۔

مجھے یقین ہے کہ وہ اب بھی جہاں ہوں گے، وہاں اسٹیج پر اسپاٹ لائٹ میں ہی ہوں گے۔ ان کے سامنے سننے والوں کا سحرزدہ اجتماع ہوگا۔ شمعیں گلُ ہوچکی ہوں گی۔ مکمل سکوت میں وہ وہاں بھی اپنی کہہ رہے ہوں گے اور سننے والے ہمہ تن گوش ہوں گے کہ صدیوں کا انتظار ختم ہوا اور فردوس مکینوں کے بھی دن آئے شاد ہونے کے۔

آواز سے دل میں اتر جانے والے ضیاء محی الدین کے خدا درجات بلند کرے۔ آمین

انا للہ و انا الیہ راجعون