رابرٹ فسک اور ارون دھتی رائے پسندیدہ رائٹرز ہیں ۔۔ وسعت الله خان

سجاد عباسی
چوتھا حصہ
نامور کالم نویس، منفرد تجزیہ کار، صحافی و دانش ور اور مقبول اینکر پرسن وسعت اللہ خان کی شخصیت کا احاطہ اگر مختصر ترین الفاظ میں کیا جائے تو وہ جملہ ہوگا ’’اپنی شرائط پر زیست کرنے والا انسان‘‘۔ رحیم یار خان کے ایک متوسط گھرانے میں جنم لینے والا خداداد صلاحیتوں کا مالک تو تھا ہی۔ ادب دوست والد نے اسے مطالعے کی چاٹ لگائی تو فہمیدگی کو چار چاند لگ گئے۔ وسعت اللہ خان دورِ حاضر کے ان چنیدہ لکھاریوں میں شامل ہیں۔ جنہیں خواص کے ساتھ ساتھ عوامی حلقوں میں بھی پذیرائی حاصل ہے۔ ان کے کالموں میں تاریخ اور عالمی و مقامی سیاست کے ساتھ ساتھ سماجی مسائل پر بھی عام فہم اور دل نشین انداز میں روشنی ڈالی جاتی ہے۔ اس پر ان کی طنازی کا تڑکا۔ محض زبان و بیاں کی شیرینی سے رغبت رکھنے والوں کو بھی گرویدہ بنائے رکھتا ہے۔ گزشتہ دنوں ’’امت‘‘ نے وسعت اللہ خان کے ساتھ ایک طویل نشست رکھی۔ یہ بات چیت انٹرویو کی شکل میں نذرِ قارئین ہے۔
٭٭٭٭٭
س: ہم بات کر رہے تھے کہ کاروباری سوچ کے نتیجے میں تحقیقاتی رپورٹنگ کہیں دفن ہو گئی اور چینل مالکان کی ترجیحات نے اصل کام کو پس منظر میں دھکیل دیا؟
ج: آپ دیکھیں بظاہر چینل 24 گھنٹے کا ہے۔ اس کو تین حصوں میں تقسیم کریں تو اصل پراڈکٹ 8 گھنٹے کی بنتی ہے۔ جسے تین بار دہرایا جاتا ہے اور ’’رائونڈ دی کلاک‘‘ باور کرایا جاتا ہے۔ اب اس آٹھ گھنٹے میں سے بھی آپ تین گھنٹے خبرنامے کے نکال دیں تو باقی بچے پانچ گھنٹے۔ ان میں سے تین گھنٹے ٹاک شوز کے نکالیں تو باقی رہ گئے دو گھنٹے۔ اب بنیادی طور پر آپ 24 گھنٹے کا چینل رن کرنے کے لیے صرف دو گھنٹے کی انویسٹمنٹ کر رہے ہیں۔ اس لیے کہ وہ جو تین ٹاک شوز ہیں۔ ان میں صرف پروڈیوسر، کیمرا پرسن، لائٹ مین اور دیگر تکنیکی عملہ تو فکسڈ تنخواہ پر ہے۔ مہمان کو آپ نے پیسے نہیں دینے۔ آپ کو صرف مرغے لڑانے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اشتہار اور ریٹنگ آرہی ہے۔ تو آپ کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ آپ کوئی بہت ہی معیاری قسم کا سافٹ ویئر خریدنے کے لیے رقم خرچ کریں۔ جبکہ آپ کے پاس پکا پکایا مال آرہا ہے اور اس سے بھی آسان چیز یہ ہے کہ ٹاک شو کو درمیان میں روکا اور کہا۔ ’’آیئے ہم چلتے ہیں، مریم نواز کی یا مفتاح اسماعیل یا کسی اور کی تقریر سنتے ہیں‘‘۔ لو جی آدھا گھنٹہ اس میں نکل گیا۔ تو مزے ہی مزے ہیں۔ آپ کو بمشکل ڈیڑھ سے دو گھنٹے کا مواد درکار ہوتا ہے۔ جو کہ آپ ’’ان ہائوس‘‘ پروڈیوس کرتے ہیں۔ اس کی بنیاد پر آپ خود کو 24 گھنٹے کا چینل کہتے ہیں۔
س: کہا جاتا ہے کہ جس طرح شاعر ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ اسی طرح صحافی کا بھی معاملہ ہے کہ آپ اس کی صلاحیتوں میں نکھار تو لا سکتے ہیں۔ مگر صحافی بنا نہیں سکتے۔ آپ کے نزدیک ایک صحافی کے اندر کون سے بنیادی اوصاف ہونے چاہئیں جس کے بغیر اسے اس شعبے کا انتخاب نہیں کرنا چاہیے؟
ج: دیکھیں، اس ملک میں کوئی بھی شخص سیاستدان اور صحافی بن سکتا ہے۔ جو معیار ہے۔ جو پراڈکٹ یا آئوٹ پٹ سامنے آرہی ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اس انڈسٹری کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اسے بہت زیادہ کوالیفائیڈ آدمی بھی نہیں چاہیے۔ وہ پھر کہے گا کہ یہ سرخی کیسی ہے۔ اس خبر یا مضمون کی زبان کیسی ہے۔ یہ پیراگراف دوبارہ لکھو۔ اس سرخی کو اوپر لائو۔ تو پروفیشنل آدمی تو ’’مسائل‘‘ پیدا کرے گا۔ جتنا کم کوالیفائیڈ ہوگا۔ اتنا زیادہ کامیاب ہوگا۔ یہی حال ہمارے اینکرز کا ہے کہ اب وہ بھی صحافی ہیں۔ صحافی تو خیر ہیں ہی صحافی جن کا ڈیسک یا رپورٹنگ کا تجربہ ہے۔ کچھ اینکر تو خیر صحافتی پس منظر رکھتے ہیں۔ ان کا معاملہ مختلف ہے۔ مگر اب اینکر بمعنی صحافی کے فارمولے کے تحت پریس کانفرنس سمیت ہر ایونٹ میں آپ کو اینکرز نظر آئیں گے۔ جب اعلیٰ حکومتی عہدیدار بریفنگ دیں گے تو وہاں بھی اینکرز کو بلایا جائے گا۔ اکا دکا جرنلسٹ بھی تبرکاً چلے جاتے ہیں۔ سو وہ جو ایک حد تھی۔ وہ بھی مٹ گئی۔ اب بہت سارے اینکرز تو ایسے ہیں جن کا بیک گرائونڈ دیکھیں تو ان کا صحافت سے کوئی علاقہ نہیں رہا۔ کوئی کہیں سے آیا اور کوئی کہیں سے۔ دوسری طرف جنہوں نے ایم اے جرنلزم کر رکھا ہے۔ وہ کہیں ڈیسک پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کی تو آپ نے شکل بھی نہیں دیکھی ہوگی۔ تو بنیادی طور پر ’’شاہ رخ خان اور عامر خان‘‘ کی واہ واہ ہے۔ پچھے جو ڈائریکٹر ہے۔ وہ ایک ہی جگہ بیٹھا ہوا بیک وقت کئی فلمیں بنا رہا ہے اور وہ خود بھی ایک بہت بڑی فلم ہے۔ اچھا ٹکرز بھی آپ کے بنے بنائے آرہے ہیں۔ اب ان کو بھی ایڈٹ کرنے کی زحمت نہیں کی جاتی۔
س: انور سن رائے صاحب سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ٹی وی چینلز اپنے ناظر کو بیس بائیس خبروں میں الجھاکر دو ڈھائی سو اصل خبروں سے بے خبر رکھتے ہیں؟
ج: جی ایسا ہی ہے۔ بالکل ایسا ہی ہے۔ میں اتفاق کرتا ہوں۔ بلکہ بزبان شاعر
میں اپنے جرم کا اقرار کر کے
کچھ اور ہے جسے چھپا رہا ہوں
س: آپ صحافت میں کن لوگوں کو استاد کا درجہ دیتے ہیں یا جنہوں نے آپ کو بے حد متاثر کیا ہو؟
ج: اچھا میں اگر نام لوں گا بھی ناں تو وہ مین اسٹریم میں تو ہیں ہی نہیں۔ نہ ان کی تصاویر لوگوں نے دیکھی ہوں گی۔ البتہ انڈسٹری کے کچھ لوگ ان سے واقف ہوں گے۔ جیسے بعض شاعر ہوتے ہیں۔ جنہیں کہا جاتا ہے ’’شاعروں کے شاعر‘‘۔ انہیں شاعر برادری ہی جانتی ہے کہ اصل میں تو یہ ہے بڑا شاعر۔ ہم بھی بس ٹھیک ہیں۔ گزارا کر رہے ہیں۔ تو اس طرح کے نام ہیں۔ جیسے فوری طور پر میرے ذہن میں آفتاب سید کا نام آرہا ہے۔ جنہوں نے ہمیں سکھایا کہ خبر کیسے پڑھی جاتی ہے۔ سمجھی جاتی ہے۔ ترجمہ کی جاتی ہے اور اختصار کے ذریعے دریا کو کوزے میں بند کیسے کیا جاتا ہے۔ جیسے اطہر ہاشمی مرحوم نے ہمیں بتایا کہ مضمون اور کالم میں کیا فرق ہوتا ہے اور کالم اور مضمون کی زبان کیا ہوتی ہے۔ جیسے ثروت جمال اصمعی ہیں۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ خبر کی اہمیت کے اعتبار سے اس کی درجہ بندی کیسے ہوتی ہے۔ کاپی کیسے بنتی ہے۔ میگزین اور اخبار میں کیا فرق ہوتا ہے۔ تو یہ وہ پتھر ہیں۔ جن کے بغیر میری ذات کی تکمیل ممکن نہیں تھی۔
س: کالم نگاروں میں کون کون آپ کے پسندیدہ ہیں؟
ج: مجھے دس سال پہلے والا ایاز امیر بہت اچھا لگتا تھا۔ کلاسکس کی بات کی جائے تو ابن انشا۔ ان سے اچھا کالم نگار تو خیر ہو ہی نہیں سکتا۔ اردو میں تو خیر یہی نام ہیں۔ ایک زمانے میں اگرچہ جاوید چوہدری مجھے اچھے لگتے تھے۔ کیونکہ انہوں نے کالم نگاری میں ایک نیا انداز متعارف کرایا تھا۔ مگر پھر انہوں نے وہی روایتی انداز اپنا لیا۔ انگریزی میں رابرٹ فسک (Robert Fisk) کا نام میں لے چکا ہوں۔ اب تو مرحوم ہو گئے۔ اس کے علاوہ انڈیا سے جاوید نقوی صاحب ڈان میں لکھتے ہیں۔ ان کی پروز (Prose) اور جکڑبندی کمال ہے۔ اسی طرح فقیر اعجازالدین انگریزی کے بہت اچھے کالم نگار ہیں۔ تو اس طرح کے لوگ مجھے پسند ہیں۔ ارون دھتی رائے کا میں فین ہوں۔
س: چینلز کے آنے کے بعد پاکستان میں پرنٹ میڈیا کا انحطاط شروع ہوا۔ اب تو خیر الیکٹرانک میڈیا کو سوشل میڈیا کھا رہا ہے اور ان دونوں کو ڈیجیٹل میڈیا۔ تو عام تاثر یہ ہے کہ پرنٹ میڈیا کی کہانی دو چار برس کی رہ گئی ہے۔ جبکہ باقی دنیا میں ایسا نہیں ہے؟
ج: نہیں ایسا ہے کسی حد تک۔ پرنٹ میڈیا تو سب سے پہلے جارہا ہے اور جاتا ہوا نظر آرہا ہے۔ مغربی دنیا میں بھی بہت سارے اخبارات ویب سائٹس پر چلے گئے ہیں یا جارہے ہیں۔ پہلے آپ ہاکر سے اگر اخبار بیس روپے کا لیتے تھے۔ اب آپ ویب سائٹ کا سالانہ سبسکرپشن دیتے ہیں تو وہ آپ کو Access دے دیتے ہیں۔ اخبار تو اب بھی موجود ہے۔ مگر اس کا پلیٹ فارم تبدیل ہو گیا ہے۔ اخبار شاید موجود رہے گا۔ اب وہ کاغذ سے اسکرین اور ڈیجیٹل کی دنیا میں آگیا ہے۔ تو وہی اس کی بقا (Survival) کا راستہ ہے۔ یہی معاملہ ریڈیو کا ہے کہ وہ جو میڈیم ویو اور شارٹ ویو کا چکر ہوا کرتا تھا۔ اس سے ریڈیو نکل گیا۔ اب موجودہ ریڈیو ایف ایم اور کمیونٹی لیول پر خصوصی مہارت رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ ریڈیو ٹریفک کے لیے ہے۔ دوسرا موسیقی کے لیے ہے۔ یہ دینی چینل ہے۔ تو اس طرح انہوں نے درجہ بندی کر لی ہے۔ کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر جنریشن کا (Attention time) کم ہوتا چلا جارہا ہے اور یہ ہوتا ہے۔ Span کم ہوتا جاتا ہے۔ مثلاً ہمارے دور میں ڈھائی گھنٹے کی فلم کوئی بات ہی نہیں تھی۔ اس سے کم دورانیے کی فلم بنتی ہی نہیں تھی۔ پھر یہ دورانیہ کم ہوکر دو گھنٹے اور پھر ڈیڑھ گھنٹے تک آگیا۔ اب عالم یہ ہے کہ میں نے گزشتہ دنوں ایک ایرانی Animated فلم دیکھی جو ایک منٹ کی تھی۔ چونکہ Span کم ہو گیا ہے۔ لہٰذا کم سے کم وقت میں Condensed چیز بنانا مشکل ہوتا ہے۔ پھیلا کر تو آپ جتنی مرضی لمبی کر لیں۔ تو اس Span of attention کی وجہ سے چیلنج بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ مگر اس میں بھی اچھی اچھی چیزیں نکل کر سامنے آرہی ہیں۔ اب آپ یہ دیکھیں کہ پہلے زمانے میں لوگوں کے پاس اتنا ٹائم ہوتا تھا کہ ’’داستان امیر حمزہ‘‘ چلتی چلی جارہی ہے اور لوگ چھ چھ مہینے تک رات کو بیٹھ کر سن رہے ہیں۔ پھر کتابوں کا دور آیا اور پھر شارٹ اسٹوریز کا دور آگیا۔ پھر چلتے چلتے سو لفظوں کی کہانی ہو گئی جو آپ کے سامنے ہی ہے اور اب بیس لفظوں میں ہو جائے تو کیا کہنے۔ تو چیزیں تبدیل ہو رہی ہیں اور آگے بھی تیزی سے ہوتی رہیں گی۔ میڈیمز اور پلیٹ فارمز نئی نسل اور زمانے کے ساتھ بدلتے رہیں گے۔ مگر جو Content کی اہمیت ہے۔ وہ کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ (جاری ہے)