جب جامعہ کراچی کی فضا "سیدی مودودی” کے نعروں سے گونج اٹھی

عارف الحق عارف

کراچی یونیورسٹی کے انتظامی بلا ک کے ساتھ واقع بڑے میدان میں وسیع پنڈال طلبا اور طالبات سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ وہ کسی بڑے اور محترم مہمان کی آمد کے منتظر تھے۔ سب کی نگاہیں داخلی دروازے پر لگی تھیں۔ اچانک پورا پنڈال ”نعرہ تکبیر اللہ اکبر، اللہ اکبر“ اور ”ایشیا سبز ہے، ایشیا سبز ہے۔“ کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھا۔ اب نعروں کی گونج میں بتدریج تیزی آتی جا رہی تھی اور طلبا و طالبات کے جوش ِ ایمانی میں عقیدت کا عنصر بھی شامل ہوگیا تھا۔ فضا ”سیّدی مودودی، سیّدی مودودی“ کے نعروں سے گونجنے لگی اور اس کے ساتھ ہی طلبا یونین کے صدر عبدالملک مجاہد، شفیع نقی جامعی، عرفان حق اور دیگر عہدے داروں کے جھرمٹ میں سیّدی کا قافلہ پنڈال میں داخل ہو رہا تھا۔ فرطِ عقیدت سے جذبات اپنی انتہا پر تھے لیکن جمعیت کی یونین کے سخت ڈسپلن کے پابند بھی، کوئی بدنظمی یا ہڑبونگ نہیں تھی۔ جمعیت کے نظریاتی مخالفین بھی شاید احترام ِ سیّدی کی وجہ سے منظر سے غائب تھے حالاںکہ سیّدی مودودی کو جامعہ میں لانے کی ایک وجہ اُن کا شفیع نقی جامعی کو ایک چیلنج بھی تھا۔ اُن مخالفین کو سیّدی کے نظریات سے یقینی طور پر اختلاف تھا لیکن کو ئی دشمنی نہیں تھی۔ اُس وقت کے نظریاتی مخالف ایسے ہی ہوا کرتے تھے۔ بحث و مباحثہ ضرور کرتے۔ تاہم، ایک دوسرے کے جانی دشمن نہیں تھے۔ ملتے تھے تو احترام کے ساتھ، دن میں چاہے نظریاتی طور پرایک دوسرے کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں لیکن شام کو صدر کے ایک ریسٹورنٹ میں ایک ساتھ چائے اور پیٹیز سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے اور سی آئی ڈی کے ایک اعلیٰ افسر مولانا عبدالغفار انہیں نصیحتیں کر رہے ہو تے تھے۔
‎سیّد ابوالاعلی مودودی کو طلبا کے ایک بڑے جلوس کے جھرمٹ اور نعروں کے شور میں نہایت محبت کے ساتھ اسٹیج پر لے جایا گیا۔ طلبا اور طالبات کو پہلی بار سیّدی کو اتنے قریب سے دیکھنے کا موقع مل رہا تھا۔ اس لئے اُن کے جذبات قابو سے باہر ہو رہے تھے۔ اور قابو سے باہر کیوں نہ ہوتے؟ اُنہیں بھَلا یہ موقع دوبارہ کب مل سکتا تھا؟ سیّدی کو اپنی کھلی آنکھوں سے اور دن کی روشنی میں دیکھنے کی اُن کی دیرینہ خواہش کو عملی تعبیر مل رہی تھی۔ نعرے مسلسل لگ رہے تھے اور اُن میں نظم وضبط کے ساتھ تیزی بھی آرہی تھی۔ اُن میں ہم آہنگی کی روانی نمایاں تھی جس کی سحر انگیز لہریں کانوں میں رس گھول رہی تھیں۔
‎یہ منظر نامہ 1974کی ایک حَسین دوپہر کا ہے جب سیّدی مودودی جامعہ کراچی میں پہلی اور آخری مرتبہ تشریف لائے۔ طلبا اور طالبات نے ان کا شان دار استقبال کیا۔ سیّدی اسی دن صبح سویرے امریکا سے علاج کرانے کے بعد اپنے بڑے بیٹے ڈاکٹر احمد فاروق مودودی کے ہمراہ طویل سفر کر کے کراچی پہنچے تھے۔ ہمیں اس پورے منظر کو جنگ کے لئے رپورٹ کرنے کا اعزاز حاصل ہے اس لئے ہمارے تصور کی دنیا میں آج بھی یہ منظرتازہ ہے۔
‎عبدالملک مجاہد (اب امام اور پی ایچ ڈی ڈاکٹر)، شفیع نقی جامعی (بی بی سی کے معروف براڈکاسٹر)، عرفان حق (اب سیکرامنٹو، امریکا میں انٹر فیتھ کا ایک بڑا نام)، مخدوم علی خان (اب پاکستان کے بڑے وکیل اور سابق اٹارنی جنرل) اور ان کی ٹیم سیّدی کو جامعہ لانے کے لئے عرصے سے کوشاں تھی۔ نظریاتی مخالفین نے جمعیت کو یہ چیلنج بھی دے رکھا تھا کہ مولانا مودودی کو جامعہ لا کر دکھائیں تو جانیں؟ اس چیلنج نے شفیع نقی جامعی اور ان کے ساتھیوں کی مولانا کو جامعہ لانے کی آتش ِ شوق کو اور بھڑکا دیا تھا۔ اس کے لئے اُنہیں بڑے پاپڑ بیلنے پڑے تھے۔ وہ اِس مقصد کی خاطر ایک وفد کی صورت لاہور بھی گئے، سیّدی سے ملے، انہیں جامعہ کراچی آنے کی باضابطہ دعوت دی اور وعدہ لے کر ہی واپس لوٹے۔ اسی وعدے کی بِنا پر اُنہوں نے واپس آکر اس کا اعلان بھی کردیا تھا کہ مولانا جامعہ آئیں گے اور طلبا اور طالبات سے خطاب بھی کریں گے۔
‎ اِس لئے یہ اُن کے لئے ایک چیلنج بن گیا تھا لیکن مولانا علاج کے لئے اپنے ڈاکٹر بیٹے کے پاس امریکا چلے گئے تھے اور اب واپس آئے تھے۔ شفیع نقی جامعی کا مولانا کو جامعہ لانے کا خواب تھا اور دلی خواہش بھی۔ اُنہیں مخالفین جمعیت کا چیلنج یاد تھا، اس لئے وہ مولانا کے کراچی پہچنے بعد اپنے ساتھی طلبہ کے ہمراہ ڈیفنس فیز ون میں مولانا کے برادر ِنسبتی کے بنگلے پر پہنچ گئے جہاں واپسی پر مولانا کا قیام تھا اُس زمانے میں امریکا کے لئے پروازیں کراچی ہی سے جاتی اور آتی تھیں۔ شفیع نقی جامعی سیّدی سے سعادت مند مُرید کی طرح ملے اور التجا کی کہ سیّدی! مَیں اپنے مخالف کیمپ کا چیلنج قبول کر چکا ہوں کہ آپ کو جامعہ کراچی لاؤں گا۔ میری اوقات ہی کیا ہے ؟ یہ تو میری ہی نہیں پوری جمعیت، آپ کی جمعیت کی عزت کا سوال ہے۔ آپ کے نظریاتی بیٹے، بیٹیاں آپ کی ایک جھلک دیکھنے کو ترس رہے ہیں۔ ان کی لاج رکھ لیجئے۔

سیّدی کا دل بھی اپنی نظریاتی اولاد کے لئے دھڑکتا تھا۔ شفیع نقی جامعی کی اس دل گداز التجا کو سن کر پسیج گئے۔ وہ امریکا سے ایک طویل سفر کر کے لوٹے تھے، سفر کی تھکاوٹ کے باوجود انکار نہ کر سکے حالاں کہ اُن کے بیٹے ڈاکٹر احمد فاروق مودودی اپنے والد کی صحت اور تھکان کی وجہ سے ان کے جامعہ جانے کے سخت خلاف تھے لیکن طلبا اور طالبات کی محبت کے سیل ِ رواں کے آگے ان کی ایک نہ چلی۔ شفیع نقی جامعی اور ان کے ہمراہیوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا۔ وہ انہیں ایک جلوس کی شکل میں لے کر سوئے جامعہ چلے تو قافلے کے ساتھ جماعت اسلامی کے کارکن بھی شامل ہوتے گئے اور جب یہ قافلہ یونیورسٹی پہنچا تو ایک بڑے جلوس کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ اُنہیں ایک بڑے جھرمٹ میں پنڈال میں سجے اسٹیج پر پہنچا دیا گیا۔
‎سیّد مودودی اسٹیج پر بیٹھ چکے تونومنتخب یونین کے سیکریٹری جنرل، عرفان حق نے مولانا کا جامعہ کے طلبا اور طالبات کی طرف سے خیرمقدم اور نہایت مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ”مولانا! جامعہ کے طلبا اور طالبات آپ کو اپنے درمیان دیکھنے کی خواہش ایک عرصے سے رکھتے تھے، آج اِن کی یہ دیرینہ خواہش پوری ہو رہی ہے۔ سب بہت خوش اور آپ کو سننے کے لئے بے تاب ہیں۔“ اِس کے بعد عبدالملک مجاہد کی باری تھی، اُنہوں نے مائیک سنبھالا توکچھ دیر خاموش رہے جیسے مناسب الفاظ کا چناؤ کر رہے ہوں یا انہیں الفاظ ہی نہ مل رہے ہوں لیکن نہیں، ایسا کچھ نہیں تھا۔ وہ کبھی مولانا اور کبھی طلبا و طالبات کے پُرجوش مجمعے کو دیکھتے تو خوشی سے جھوم اٹھتے کہ آج اُن کے درمیان سیّدی مودودی موجود ہیں۔ اُنہوں نے اپنے جذبات جمع کرتے ہوئے یوں آغاز کیا
‎”مولانا! آج ہم بہت خوش ہیں۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ آپ کا شکریہ کیسے ادا کریں؟ اس کے لئے ہمارے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ ہمارا ایک خواب شرمندہتعبیر ہوا ہے اور ایک دیرینہ خواہش پوری ہو ئی ہے۔ آج آپ ہمارے درمیان موجود ہیں۔“ نعرے پھر سے گونجنا شروع ہوگئے۔ اُن میں نظم تھا، ضبط تھا اور روانی و توازن بھی۔ ’نعرہ تکبیر اللہ اکبر، اللہ اکبر۔ سیّدی، سیّدی مودودی، مودودی۔ ایشیا سبز ہے، ایشیا سبز ہے۔ ملک مجاہد نے ہاتھ سے رکنے کا اشارہ کیا۔ پنڈال میں خاموشی چھا گئی۔ وہ تقریر دوبارہ شروع کرتے ہیں۔ ”مولانا! آپ کا اِس قدر احترام اور آپ کے آنے کی اتنی خوشی ہے کہ اس کے اظہار کے لئے الفاظ نہیں مل رہے۔“
‎اِس کے بعد مولانا نے نو منتخب یونین سے سا لمیت ِ پاکستان کا باقاعدہ حلف لیا۔ نومنتخب صدر شفیع نقی جامعی کو بولنے کا موقع ملا تو اُن کا انداز فاتحانہ تھا۔ وہ مخالفین کا چیلنج پورا کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ اُن کے اور ملک بھر میں پھیلے لاکھوں طلبا اور طالبات کے پیر ومرشد اسٹیج پر تشریف فرما تھے۔ انہوں نے اپنے روایتی جوشیلے انداز میں بے ساختہ کہنا شروع کیا۔
‎”مولانا! آپ ہماری دعوت پر جامعہ کراچی تشریف لائے، آپ کا بہت بہت شکریہ۔ مولانا! میں احترام اور جذبات میں ہوش نہیں کھو دیتا کیوںکہ یہ حوصلہ آپ ہی نے تو دیا ہے۔ میرے پاس تو الفاظ بھی ہیں اور جذبات بھی، مجھے کوئی گھبراہٹ بھی نہیں ہے۔ مجھے تو یہ ڈر بھی نہیں ہے کہ مَیں کس کے سامنے بات کر رہا ہوں۔ میرے پاس ایک ہی بات تو ہے۔ بے باکی اور بے خوفی سے بات کرنے کا یہ سلیقہ آپ ہی نے تو سکھایا ہے۔“
‎شفیع نقی جامعی کی تقریر کے ایک ایک جملے پر نعرے لگتے تھے اور اُن کے آخری جملوں پر تو پورا پنڈال جوش ِ جذبات میں اپنی اپنی نشستوں سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ اللہ اکبر اور سیّدی مودودی کے نعروں سے پنڈال پھر گونجنا شروع ہوگیا۔
‎مولانا مودودی کو دعوت ِ خطاب دی گئی تو پورے پنڈال میں موجود شرکاءاپنی نشستوں سے احترام اور عقیدت کے ملے جلے جذبات میں شرابور دوبارہ کھڑے ہوگئے اور پنڈال میں پھر وہی نعرے گونجنے لگے۔ نعروں کا یہ سلسلہ ایک دو منٹ تک جاری رہا۔ عبدالملک مجاہد اور شفیع نقی جامعی نے پُرجوش طلبا کو ہاتھ کے اشاروں سے خاموش ہونے اور مولانا کی تقریر خاموشی اور سکون سے سننے کی تلقین کی۔ ماحول پُرسکون ہوا تو مولانا نے بیٹھے بیٹھے اللہ کی حمد وثنا اور آںحضور ﷺ پر درود وسلام کے بعد تقریر شروع کی۔

یونیورسٹی ٹیچرز فورم کامیاب
‎”آپ نوجوان طلبا اور طالبات اسلام کے نام پر حاصل کئے جانے والے اس ملک کا مستقبل ہیں۔ ایک قوم اور آنے والے دَور کے رہنما ہیں۔ پاکستان کے عوام آپ سے بڑی امیدیں لگائے ہوئے ہیں۔ آپ اپنی ساری توجہ تعلیم مکمل کرنے پر صَرف کریں۔ اِس کے ساتھ ساتھ قرآن وحدیث کے پیغام کو بھی سمجھیں۔ اس کے بتائے ہوئے طریقوں اور اصولوں پر عمل کرنے کے ساتھ اپنے دوسرے ساتھیوں تک پہنچانے کی کوشش بھی کریں۔ تعلیم مکمل ہوجائے تو ملکی سیاست یا جو شعبہ بھی پسند کریں، اس میں بھرپور حصہ لیں۔ اس طرح ملک کی تعمیر وترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ آنے والا دَور آپ کا ہے۔“
‎مولانا کی تقریر کے دوران میں بھی وقفے وقفے سے نعرے بازی کا سلسلہ جاری رہا۔ اُنہوں نے پھر کہنا شروع کیا۔
‎”میں دو دن کے مسلسل سفر کے بعد امریکا سے یہاں پہنچا ہوں۔ تھکاوٹ اور کم زوری بھی ہے۔ اِس کے باوجود آپ کے رہنماﺅں کے اصرار پر حاضر ہوگیا ہوں کہ آپ اللہ کے لئے مجھ سے بے لوث محبت کرتے ہیں۔ مَیں آپ کی دعوت کیسے ٹال سکتا تھا؟“
‎اُن کی اِس بات پر ہال میں پھر نعرے گونجنے لگے۔ ”نعرہتکبیر اللہ اکبر، اللہ اکبر۔ سیّدی مودودی، سیّدی مودودی۔ ایشیا سبز ہے، ایشیا سبز ہے۔“ مولانا نے مزید کہا:
‎”حقیقی جمہوریت کے نتیجے میں مسلسل انتخابات ملک کو ترقی کے راستے پر گام زن کر سکتے ہیں اور پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کرنے کا بھی یہی واحد راستہ ہے۔ یہ جمہوریت کا حُسن ہے کہ امریکا میں واٹرگیٹ اسکینڈل کے نتیجے میں دنیا کے طاقت ور صدرکو اپنے عہدے سے استعفا دینا پڑا۔“
‎مولانا کی تقریر کے بعد تقریب بھی اپنے اختتام کو پہنچی اور مولانا کو بحفاظت ایک جلوس کی شکل میں واپس اُن کی قیام گاہ پہنچا دیا گیا۔