قلم کو پیرمان لیں تو وہ انگلی پکڑ کرچلاتا ہے۔ وسعت اللہ خان

سجاد عباسی

نامور کالم نویس، منفرد تجزیہ کار، صحافی و دانش ور اور مقبول اینکر پرسن وسعت اللہ خان کی شخصیت کا احاطہ اگر مختصر ترین الفاظ میں کیا جائے تو وہ جملہ ہوگا ’’اپنی شرائط پر زیست کرنے والا انسان‘‘۔ رحیم یار خان کے ایک متوسط گھرانے میں جنم لینے والا خداداد صلاحیتوں کا مالک تو تھا ہی۔ ادب دوست والد نے اسے مطالعے کی چاٹ لگائی تو فہمیدگی کو چار چاند لگ گئے۔ وسعت اللہ خان دورِ حاضر کے ان چنیدہ لکھاریوں میں شامل ہیں۔ جنہیں خواص کے ساتھ ساتھ عوامی حلقوں میں بھی پذیرائی حاصل ہے۔ ان کے کالموں میں تاریخ اور عالمی و مقامی سیاست کے ساتھ ساتھ سماجی مسائل پر بھی عام فہم اور دل نشین انداز میں روشنی ڈالی جاتی ہے۔ اس پر ان کی طنازی کا تڑکا۔ محض زبان و بیاں کی شیرینی سے رغبت رکھنے والوں کو بھی گرویدہ بنائے رکھتا ہے۔ گزشتہ دنوں ’’امت‘‘ نے وسعت اللہ خان کے ساتھ ایک طویل نشست رکھی۔ یہ بات چیت انٹرویو کی شکل میں نذرِ قارئین ہے۔

س: ہم اپنے ہاں میڈیا میں دیکھ رہے ہیں کہ Content تو وقت کے ساتھ کمزور ہوتا چلا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا پر خبروں اور انفارمیشن کا ایک سیلاب ہے۔ جسے رپورٹر بھی اسی حالت میں آگے بڑھا دیتے ہیں اور سب ایڈیٹر بھی زیادہ تردد نہیں کرتا۔ تو اس صورت میں جب Content معیاری نہیں ہو گا تو آپ کیا بیچیں گے؟
ج: رپورٹرز کے لیے اور پوری میڈیا انڈسٹری کے لیے ایک بہتر بڑا چیلنج یہ بن کر سامنے آگیا ہے کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے۔ دونوں میں تمیز کیسے کی جائے۔ اس لیے کہ مارکیٹ میں دس طرح کے سچ اور بیس طرح کے جھوٹ گھوم رہے ہیں اور پچاس پراڈکٹس ایسی گردش کر رہی ہیں جن میں آدھا سچ اور آدھا جھوٹ ہے۔ اور ایک المیہ یہ ہے کہ جب تک سچ گھر سے نکلتا ہے تب تک جھوٹ گلوب کے تین چکر کاٹ چکا ہوتا ہے۔ تو یہ "Race against Time” ہے۔ تو اخبار کی جسٹی فیکیشن یہ ہے کہ جو لفظ چھپ گیا۔ وہ ٹھیک ہے۔ ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ فلاں بات اخبار میں آگئی۔ یعنی مستند ہو گئی۔ تو اگر آپ کے اخبارات محض جگالی پر چل رہے ہیں اور کوئی نئی چیز نہیں دے رہے تو ان کی بقا یقینی طور پر خطرے میں ہے۔ اب جن جن میڈیا ہائوسز کے چینل بھی ہیں اور اخبار بھی۔ آپ ان کا اخبار اٹھا کر دیکھیں تو آدھے سے زیادہ اخبار اسی چینل پر جو کچھ رات کو چل چکا ہے، اسی کو Reproduce کر کے چھاپ دیتے ہیں۔ باقی کچھ پریس ریلیز آجاتے ہیں۔ پھر جو جگہ بچتی ہے وہاں کوئی دو چار آئٹمز رپورٹرز کے بھی لگ جاتے ہیں۔ باقی جگہ اشتہارات چھپ جاتے ہیں۔ تو پھر میں ایسا اخبار کیوں خریدوں گا۔ مجھے جب Real Time میں سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے خبر مل رہی ہے۔ اب اس میں جھوٹ سچ کا تناسب کیا ہے یہ ایک الگ بحث ہے۔ لیکن بنیادی اطلاع مجھ تک رئیل ٹائم میں پہنچ گئی تو میں اخبار کاہے کو خریدوں گا۔ تو اخبار کو چاہیے کہ وہ خود کو بدلتی دنیا کے ہم آہنگ بنائے۔ ظاہر ہے دنیا اس کے ہم آہنگ تو نہیں بنے گی۔ تو یہ چیزیں سوچنے کی ہیں۔


س: آپ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے میڈیا میں رہ کر اردو کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک خوش آئند پیش رفت دیکھنے میں آرہی ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے لوگ اب ٹویٹر، فیس بک وغیرہ پر انگریزی کے بجائے اردو میں لکھ رہے ہیں۔ جبکہ ماضی میں وہ انگریزی کے علاوہ کسی زبان میں بات کرنا خلاف شان سمجھتے تھے۔ اس تبدیلی کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
ج: یہ تو بہت اچھی پیش رفت ہے جسے سراہا جانا چاہیے۔ یہ جو زبان مرنے کا خوف ہے یہ بے بنیاد ہے۔ زبانیں مرا نہیں کرتیں۔ اس لیے کہ زبانیں آپ کی اجازت سے پیدا نہیں ہوتیں تو آپ کی اجازت سے مریں گی بھی نہیں۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ دریا جس علاقے سے گزر رہا ہے۔ اس علاقے کا کچرا بھی اس میں شامل ہو جاتا ہے۔ لیکن دریا تو نہیں رک رہا۔ وہ تو اپنی رفتار سے بہہ رہا ہے۔ تو زبان کا بھی یہی معاملہ ہے۔ یہ جو ہمارا پہلے ایک مسئلہ تھا ناں کہ جی ’’ش ق‘‘ (شین قاف) درست نہیں ہے تو زبان ٹھیک کیسے ہوگی۔ یہ سلسلہ اب کم ہوتا جارہا ہے اور اب ہمیں اس سوچ سے جان چھڑا لینی چاہیے۔ بات سمجھ میں آرہی ہے چاہے بولنے والا کسی بھی لہجے میں اردو بول رہا ہے۔ ابلاغ ہو رہا ہے تو کافی ہے۔ بس اس پر تکیہ کرلو اور صبر کر لو۔ اگر تم Perfection کے چکر میں پڑ گئے تو مشکل ہو جائے گی۔ اب اردو تو رابطے کی زبان ہے تو ہمیشہ اس حیثیت میں زندہ رہے گی۔ لیکن اس کی بنیاد پر شدت پسندی اختیار کر لینا کہ نہیں صاحب صرف اردو…۔ تو ایسا نہیں ہوگا۔ آپ کے سامنے بنگالی زندہ ہے اور بہت اچھی طرح جی رہی ہے۔ تو اس چکر میں نہ پڑیں۔ اگر آپ کی سندھی، پنجابی، پشتو، سرائیکی، بلوچی اور دیگر زبانیں مضبوط ہوں گی تو اردو بھی اتنی ہی مضبوط ہوگی۔ لیکن اگر آپ نے صرف اردو کو مضبوط کرنے کی کوشش کی تو ’’صرف اردو‘‘ کمزور ہو گی۔ اس لیے کہ باقی زبانیں جڑوں کے ساتھ زمین میں گڑی ہوئی ہیں۔ تو آپ کو اس کا ادراک کرنا ہوگا۔


س: صحافت کی بات کی جائے تو آزادی صحافت کی اصطلاح لازماً ذہن میں آتی ہے۔ ایک تو اس کی Definition کیا ہے۔ دوسرے اس آزادی کو کس سے حقیقی خطرہ ہے۔ حکومت یا اسٹیبلشمنٹ سے؟ میڈیا مالکان سے یا خود صحافیوں سے؟
ج: سبھی سے خطرہ ہے۔ جون ایلیا نے کہا تھا ناں
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
بات اصل یہ ہے کہ اندرونی خطرہ زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ باہر والا (External) تو آپ کو نظر آرہا ہوتا ہے۔ اس کی پیش بندی کے لیے آپ منصوبہ بناتے ہیں۔ اس کا تو ذکر کرتے ہیں۔ مگر اندرونی خطرہ نظر نہیں آتا۔ مجھے لگتا ہے کہ اس وقت آزادی صحافت کو سب سے زیادہ خطرہ میڈیا مالکان اور صحافیوں سے ہے اور وہ ترغیبات اور مفادات جو خطرہ یا Vulnerability پیدا کرتے ہیں اور کمزور کرتے ہیں۔ ان میں آپ اس وقت پوری طرح جکڑے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہوتا یہ ہے کہ ہمیں غصہ تو آتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے کی
نسل کا صحافی غصے میں کھڑا بھی ہو جاتا تھا۔ سڑکوں پر نکل آتا تھا۔ اب ایسا نہیں ہوتا۔ اب ہم غصہ کرتے بھی ہیں تو بس اپنے آپ پر۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مختلف مفادات کی رسیوں سے بندھے ہوئے ہیں کہ اگر ہم نے زیادہ مزاحمت کی تو کہیں مراعات ختم نہ ہو جائیں۔ جہاں تک رسائی ہے وہ رسائی ختم نہ ہو جائے۔ ماضی میں اگر صحافی مزاحمت کرتے تھے تو مالکان رسمی طور پر ہی سہی ،پس منظر میں رہ کر ہی ساتھ دے دیا کرتے تھے۔ اب تو مالکان کا سارا کھیل ہی معاشی ہے۔ وہ کہاں آپ کو مزاحمت کی اجازت دے گا۔ تو بنیادی طور پر ہم نے جرنلزم میں جو پڑھا تھا کہ صحافت ایک مشن ہے۔ تو کبھی رہا ہو گا۔ ہمیں اس کا اندازہ نہیں ہے۔ مگر اب تو یہ ایک انڈسٹری ہے۔ بلکہ ایک فیکٹری کی طرح کام ہو رہا ہے۔ فیکٹری میں آپ ’’فور مین‘‘ کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں نیوز ایڈیٹر یا ڈائریکٹر کہتے ہیں۔ فیکٹری میں منیجر ہوتا ہے۔ یہاں ایڈیٹر۔ وہاں فیکٹری ورکر ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں سب ایڈیٹر ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ تو کوئی فرق نہیں۔ آج کے دور میں صحافت کا بنیادی motive ہے نفع اور اپنے مفادات کا تحفظ۔ تو مالکان کی دیکھا دیکھی صحافیوں نے بھی کہا کہ ہم اپنا Interest سیو کیوں نہ کریں۔ تو نتیجہ یہ نکلا کہ کنسٹرکشن کمپنیاں بھی پھل پھول رہی ہے۔ مراعات بھی مل رہی ہیں۔ ذاتی فائدے بھی اٹھائے جارہے ہیں۔ تو ہم بنیادی طور پر Agent of change بننے کے بجائے ایجنٹ آف سیلف اور ایجنٹ آف اسٹیٹس کو بن گئے ہیں۔


س: آخری سوال ہے۔ وسعت اللہ خان صحافت میں خود کو کس مقام پر دیکھنا چاہتے تھے اور وہ اپنے آپ کو کس درجے پر دیکھ رہے ہیں۔ صورت حال اطمینان بخش ہے؟
ج: مجھے صحافت میں آنے کا شوق بچپن سے ہرگز نہیں تھا۔ بس آنا تھا تو آگیا۔ لیکن یہ ہے کہ آکر مجھے یہ جگہ پسند آگئی کہ یہاں رہا جا سکتا ہے۔ تو اسی طرح 43 برس گزر گئے۔ اچھا، میں آج تک یہ یقین نہیں کر سکا کہ مقام کیا ہوتا ہے۔ مجھے تو یہ بھی پتہ نہیں چلا کہ میں آپ کو سینئر صحافی کیوں کہہ رہا ہوں۔ آپ کو ایسے کون سے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں۔ اور یہ جو صاحب کھڑے ہیں ان کو میں سینئر صحافی کیوں نہیں کہتا۔ تو یہ آپس میں دل خوش کرنے والی باتیں ہیں۔ یہ کوئی فوج یا بینک یا عدلیہ نہیں ہے کہ آپ اس عہدے پر پہنچ گئے یا ہائی کورٹ کے جج بن گئے تو بڑی بات ہو گئی۔ اگر آپ پروفیشنل ہیں تو ٹھیک ہو گیا۔ اور اگر پروفیشنل نہیں ہیں تو پھر آپ باقی لوگوں کی طرح ہاتھ پائوں ماریں گے۔ کبھی ایک کو دبائیں گے۔ کبھی دوسرے کی گردن پر انگوٹھا رکھیں گے۔ اگر آپ کے آس پاس پھرتے ہوں گے تو اور خوش ہوں گے۔ قدآور ہوں گے تو برداشت نہیں کریں گے۔ جیسے باقی دنیا میں چلتا ہے یہاں بھی ویسا ہی ہو گا۔ سچی بات یہ ہے کہ میں جیسے لکھتا ہوں۔ ویسے ہی بولتا ہوں۔ مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ میں نے ایسا کیا خاص لکھ دیا جسے اس قدر پذیرائی ملی۔ اب اگر کسی کو لگ رہا ہے کہ میں کچھ مختلف لکھ رہا ہوں تو یہ اس کی مہربانی ہے۔ میں نے اسے مرعوب (Impress) کرنے کے لیے نہیں لکھا۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر لکھاری کے پاس سے ساری چیزیں بھی ختم ہو جائیں تو اسے کم از کم اپنی بے ساختگی کو بچا کر رکھنا چاہیے۔ کیونکہ وہی اسے آخر میں بچاتی ہے۔ اگر اس نے یہ سوچ کر قلم چلانے کی کوشش کی کہ فلاں خوش اور فلاں ناراض ہو جائے گا تو قلم آگے نہیں چلے گا اور آپ اسے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹ کر آگے لے کر جائیں گے۔ لیکن اگر آپ قلم کو اپنا پیر مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جناب عالی! پہلا جملہ میں نے لکھ دیا۔ اب آگے لے کر چلیں تو قلم آپ کو انگلی پکڑ کر آگے لے جائے گا۔