اسلام آباد: پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں بیرسٹر علی ظفر نے دلائل مکمل کر لیے، وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہو گئی۔
سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ سے متعلق ازخودنوٹس کیس کی سماعت جاری ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بنچ سماعت کررہاہے،بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ الیکشن میں ایک گھنٹے کی بھی تاخیر نہیں ہو سکتی۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنر کو ارسال کی،گورنر پنجاب نے نگران وزیراعلیٰ کیلیے دونوں فریقین سے نام مانگے،ناموں پر اتفاق رائے نہ ہوا تو الیکشن کمیشن نے وزیراعلیٰ کا انتخاب کیا،الیکشن کمیشن نے گورنر کو خط لکھ کر پولنگ کی تاریخ دینے کا کہا،گورنر نے جواب دیا انہوں نے اسمبلی تحلیل نہیں کی تو تاریخ کیسے دیں؟
انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق اسمبلی تحلیل کے بعد90 دن میں انتخابات لازمی ہیں،کوئی آئینی عہدیدار بھی انتخابات میں 90 دن سے زیادہ تاخیر نہیں کر سکتا،90 دن کی آئینی مدت کا وقت 14 جنوری سے شروع ہو چکا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ الیکشن کی تاریخ کون دیتا ہے؟جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ 90 سے تاخیر کے حوالے سے آئین کی کوئی شق نہیں ،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا الیکشن میں 90 دن سے تاخیرہو سکتی ہے؟وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے کہاکہ الیکشن میں ایک گھنٹے کی بھی تاخیر نہیں ہو سکتی۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا کہ کیا الیکشن میں 90 دن سے تاخیر ہو سکتی ہے۔
وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ الیکشن میں ایک گھنٹے کی بھی تاخیر نہیں ہو سکتی، تاریخ کی نہ الیکشن کمیشن زمہ داری لے رہا ہے نہ گورنر ، صدر مملکت نے معاملے پر دو خطوط لکھے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ صدر مملکت کا خط ہائیکورٹ حکم کے متضاد ہے۔
سٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے تو اپنے جواب میں خود لکھا کہ گورنر سے مشاورت آئین میں نہیں، اگر مشاورت نہیں تو کمیشن پھر خود الیکشن کی تاریخ دے دیتا، الیکشن کمیشن اگر خود تاریخ دیدے تو کیا یہ توہین عدالت ہو گی؟
علی ظفر نے دلائل دیے کہ خیبرپختونخوا میں صورتحال مختلف ہے، خیبرپختونخوا میں گورنر نے اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے پر دستخط کیے ، خیبرپختونخوا میں گورنر الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں کر رہا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں کیس کی اگلی سماعت کل ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ گورنر خیبرپختونخوا کو پشاور ہائیکورٹ میں 21 دن جواب جمع کرانے کے لیے دیے ، پشاور ہائیکورٹ نے 21 دن کا نوٹس کیوں دیا فریقین کو؟ قانونی نقطہ طے کرنا ہے یہ کوئی دیوانی مقدمہ تو نہیں جو اتنا وقت دیا گیا۔
چیف جسٹس نے آج ہی گورنر خیبرپختونخوا کے سیکرٹری کو جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ سیدھا سادھا کیس ہے 18 جنوری سے گورنر تاریخ دینے میں ناکام ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدالت نے جائزہ لینا ہے کہ کیا لا اینڈ آڈر یا کسی اور وجہ سے الیکشن میں تاخیر ہو سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 218(3)فری فیئر شفاف انتخابات کا کہتا ہے، الیکشن کمیشن کو شفاف الیکشن کروانے ہیں، کیا گورنر کی مشاورت کی ضرورت ہے یا نہیں، الیکشن کمیشن کا کام انتخابات کرانا ہے، سیکشن 57 کے تحت تاریخ دینے کیلئے الیکشن کمیشن کا کردار مشاورت کا ہے۔علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن بے بسی ظاہر کرے تو عدالت کو ایکشن لینا چاہیے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ الیکشن کی تاریخ دینا ذمے داری کس کی ہے؟۔ علی ظفر نے جواب دیا کہ الیکشن کی تاریخ کے تعین کا سوال ہی عدالت کے سامنے ہے، پوری قوم کی نظریں عدلیہ پر ہیں قوم آپکی شکرگزار ہوگی۔الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ 2018 کے انتخابات کی تاریخ صدر مملکت نے دی تھی۔