مفتی ولی حسن پر اعتماد
ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ اپنے والد اور عمومی گھریلو تربیت کی وجہ سے ہمارا شروع ہی سے دین کی جانب گہرا لگاؤ تھا۔ ہم نے ہمیشہ دینی کتب پڑھنے اور عربی زبان سیکھنے کی کوشش کی پھر جب ہمیں چھٹی جماعت میں عربی اور فارسی کے اختیاری مضامین میں سے کسی ایک کو لینے کا اختیار ملا تو عربی کو مضمون کے طور پر پڑھنے کافیصلہ کیا۔ آٹھویں جماعت تک یعنی دو برسوں میں ہمارے استاد محترم مولانا غلام محمد، فاضل دیو بند نے ہمیں اس کی صرف و نحو اور سارے قواعد و ضوابط اس طرح یاد کرائے کہ اب تک نہیں بھولے۔اس کے علاوہ ہمیں اپنے گاؤں کے عالم دین مولانا محمد اشرف،مولانا محمد اعظم اور ایک دوسرے گاؤ ں کے مفتی عبدالکریم، فاضل دیوبند سے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنے کا موقع بھی ملا تھا جس کے لئے ہم اپنے دوست محمد بشیر کے ساتھ کبھی کبھی ان کے گھر جایا کرتے تھے۔ یہی مذہبی رجحان ہمیں اپنے دو دوستوں کے ساتھ دینی تعلیم کے لئے پنجاب کے ایک مشہور دارالعلوم میں داخلے کے لئے بھی لے گیا۔ تاہم، ایک ڈیڑھ ماہ کے اندر ہی ہمارا یہ شوق پورا ہوگیا اور ہم واپس آکر دوبارہ اسکول میں داخل ہو گئے۔
یہی پس منظر ہمارے ساتھ ہر وقت موجود رہا اور اسلامی علوم سے دلچسپی ہمیشہ ہمیں دینی اداروں اور علماء کرام کے ساتھ جڑے رہنے کا باعث بنتی رہی۔جنگ میں دینی بیٹ لینے کا بھی یہی وجہ تھی چنانچہ جب 1978 کے دوران کراچی میں چودھویں ہجری سال کے اختتام اور پندرھویں صدی ہجری کے آغاز کے موقع پر رابطہ عالم اسلامی کے زیر اہتمام ایشیائی کانفرنس منعقد ہوئی اور ہمیں ہی اس کی ”جنگ“ میں شان دار کوریج کرنے کا موقع ملا۔جس کو رابطہ عالم اسلامی کے سیکریٹری جنرل محمد علی الحرکان اور دوسرے عہدیداروں نے بڑا پسند کیا۔اس طرح اپنے اخبار کی وجہ سے ہمارا تعلق عالم اسلام کے ایک بڑے ادارے ”رابطہ عالم اسلامی“ سے قائم ہوا جس کا صدر دفتر مکہ مکرمہ میں ہے۔ہمیں اس کے عربی ماہ نامے کی نمائندگی دی گئی تو عربی کی استعداد کو مزید بڑھانے اور جدید عربی سیکھنے کے لئے ہماری دلچسپی میں ایک بار پھر اضافہ ہوگیا۔
اب سوال یہ تھا کہ عربی سیکھنے کے لئے کہاں داخلہ لیا جائے؟ ہمارا خیال تھا کہ کسی بھی زبان کو سیکھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ زبان اہل زبان اساتذہ سے سیکھی جائے اور ان سے اسی زبان میں گفتگو بھی کی جائے۔ چناںچہ کھوج ہوئی کہ وہ کون سا دارالعلوم یا ادارہ ہے جہاں عربی سکھانے والے اساتذہ بھی اہل عرب ہیں۔ ہمیں معلوم ہوا کہ کراچی کے متعدد مدارس میں ایک معاہدے کے تحت مصر کے دو دو اساتذہ عربی کی کلاسیں لیتے ہیں۔ ان مدارس میں ہمارے گھر سے قریب ترین دارالعلوم جامعہ اسلامیہ، بنوری ٹاؤن تھا، چناںچہ ہم نے اس کے مہتمم مولانا احمد الر حمن سے رابطہ کیا۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن اور مولانا عبدالرزاق اسکندر جیسے جیّد علمائے کرام بھی اس دارالعلوم سے وابستہ تھے اور ان سب سے جنگ کے نامہ نگار کی حیثیت سے ہمارے پہلے سے تعلقات تھے۔ ہم نے مہتمم مفتی احمد الرحمن سے ان مصری اساتذہ سے عربی سیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس کے لئے باقاعدہ کلاس میں آنا ہوگا۔ چناںچہ ہمیں کلاس میں داخلے کی اجازت مل گئی اور ہم نے عربی سیکھنا شروع کردی۔ ہم نے کوئی سال ڈیڑھ سال تک مصر کے ان اساتذہ سے عربی زبان پڑھی اور اس قدر عبور حاصل کر لیا کہ پھر اپنے اساتذہ سے عربی ہی میں بات چیت کرتے تھے۔
ہم یہ سلسلہ جاری رکھنا چاہتے تھے لیکن مصری حکومت کا پاکستان بھر کے مدارس کے ساتھ معاہدہ ختم ہوگیا اور وہ دونوں اساتذہ واپس اپنے وطن چلے گئے۔ ان اساتذہ سے عربی سیکھنے اور ان سے عربی زبان ہی میں بات چیت کرنے کا اچھا نتیجہ نکلا اور ہمیں قرآن، عربی اخبارات، عرب ریڈیو اور ٹی وی کی خبریں پوری طرح سمجھ میں آنے لگیں۔ اس زمانے کے ہمارے کلاس فیلوز میں مفتی ذکی اور مولانا حبیب اللہ چترالی بھی شامل تھے۔ مفتی ذکی تعلیم سے فراغت کے بعد ”بنوری ٹاؤن“ میں انتظامی عہدے پر فائز رہے۔ افسوس ہے چند سال قبل ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کا پاکستان چوک، کراچی میں ”ایجوکیشنل پریس“ کے نام سے ذاتی مطبع بھی تھا۔ ان سے کئی بار بعد میں بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ مولانا حبیب اللہ چترالی فراغت کے بعد مانسہرہ منتقل ہو گئے اور اب وہاں طالبات کے ایک بڑے مدرسے کے مہتمم ہیں۔2001 میں ہماری ان سے مانسہرہ میں اسی مدرسے میں ملاقات ہوئی تھی۔ ہم اپنے گھر والوں کے ساتھ شمالی علاقہ جات کی سیر کے لئے جاتے ہوئے وہاں سے گزرے تھے تو انہوں نے مدرسے ہی میں ہماری شان دار دعوت کی تھی۔
دارالعلوم میں عربی کی کلاسوں کے دوران میں ہمارا یہ روز کا معمول تھا کہ صبح آٹھ بجے نیوٹاؤن پہنچ جاتے اور اپنی کلاس لینے کے بعد کچھ دیر مفتی ولی حسن کے پاس بیٹھتے، ان کی علمی گفتگو سنتے، کچھ اپنی سناتے اور چائے پی کر اپنے دفتر یا رپورٹنگ کے لئے ہائی کورٹ چلے جاتے۔ ہمارا ان سے یہ تعلق اتنا بڑھ گیا تھا کہ ان کو ہمارا انتظار رہنے لگا اور ہمیں بھی ان سے ملے بغیر چین نہ آتا۔ یہ تعلقات بے تکلفی کی حدوں کو جا پہنچے تھے اور ہم ان سے عربی میں ہر قسم کی بات چیت کر سکتے تھے۔ وہ بھی ہم سے بڑی محبت سے ملتے۔ اس محبت کی وجہ ہمارا جماعت اسلامی سے تعلق بھی تھا جسے وہ اس بنا پر پسند کرتے تھے کہ وہ ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے کام کرنے والی تمام جماعتوں کو پسند کرتے تھے جن میں جماعت اسلامی سر فہرست تھی۔ اسی بِنا پر ان کا مولانا مودودی سے بھی بے حد احترام اور محبت کا رشتہ تھا جس کا اظہار وہ ہم سے کھل کر کرتے تھے۔ حالاںکہ دارالعلوم میں جماعت اور مولانا مودودی کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔
اسی زمانے کی بات ہے کہ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کا ایک انٹرویو ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا جس کی بڑے پیمانے پر ریڈیو، اخبارات اور ٹی وی پر تشہیر کی گئی تھی۔ اس لئے اس کا بڑا چرچا تھا۔ انٹرویو لینے والے پینل میں ریڈیو کے سلیم گیلانی، مشہور ادیب، شاعر اور ڈرامہ نگار سلیم احمد اور کالم نگار عبدالقادر حسن شامل تھے۔ اس وقت جنرل ضیاءالحق کا مارشل لا نافذ ہوئے تیسرا سال تھا اور ”پاکستان قومی اتحاد“ کی بعض جماعتیں بھی عبوری حکومت میں شامل تھیں جن میں جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد، چودھری رحمت الٰہی، محمود اعظم فاروقی اور پروفیسر خورشید احمد بھی شامل تھے۔
محمود اعظم فاروقی، وفاقی وزیراطلاعات و نشریات، ملک کے مایہ ناز ادیب، شاعر، نقاد، ڈراما نگار اور کالم نگار سلیم احمد ان کے مشیر، مشہور شاعر اور صداکار سلیم گیلانی، ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر اور عبدالقادر حسن ملک کے صف اوّل کے اخبار نویس اور کالم نگار تھے۔ اس لحاظ سے یہ بہترین پینل تھا جس کا مرتبہ علمی طور پر بھی بہت بلند تھا۔ ہم نے مفتی ولی حسن سے اس انٹرویو کا تذکرہ پہلے ہی کردیا تھا اور ان سے درخواست کی تھی کہ وہ اسے ضرور سنیں اور اس پر اپنی رائے بھی دیں۔ جس رات یہ انٹرویو نشر ہوا۔ ہم کسی دفتری مصروفیات کی وجہ سے اسے سن نہ سکے اس لئے اُس کے دوسرے دن ہم عربی کی کلاس میں شرکت کے بعد معمول کے مطابق مفتی ولی حسن کے کمرے میں گئے تو چائے پینے کے دوران میں ہم نے ان سے پوچھا، ”آپ نے مولانا کا انٹرویو سنا؟“ جس کا جواب انہوں نے اثبات میں دیا۔ ہم نے دریافت کیا، انٹرویو کیسا تھا؟ اور کیا مولانا نے کوئی متنازعہ بات تو بیان نہیں کردی؟ اس پر انہوں نے تھوڑی دیر سوچا پھر کہنا شروع کیا، ”مجموعی طور پر تو انٹرویو ٹھیک تھا مگر ایک جگہ ایسی بات بیان ہوگئی ہے جس سے اگر کوئی چاہے تو فتنہ پیدا کرسکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انٹرویو میں کاٹ چھانٹ کی گئی ہے جس سے یہ تاثر پیدا ہوا۔“ جہاں تک ہمیں یاد ہے وہ متنازعہ جملہ یہ تھا: ”حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی رائے کی پابندی لازمی نہیں، اختیاری ہے۔“ انٹرویو میں اس کی تفصیل نہیں تھی اور نہ کسی واقعہ یا حدیث کا ذکر تھا، جس سے مولانا نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا۔ ہم دونوں کی رائے تھی کہ ممکن ہے، مولانا نے اس حدیث کا ذکر کیا ہو جس میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورے کے بعد کھجوروں کے پودے لگائے تھے اور ان سے پھل نہ آنے پر جب آپ، صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ، صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ وہ ان کی ذاتی رائے تھی اور تم کھجوروں کی فصل کے بارے میں زیادہ جانتے ہو اس لئے میری رائے پر عمل کرنا ضروری نہیں تھا۔ لیکن انٹرویو میں اس کا یا کسی اور حدیث کا ذکر نہیں تھا جس سے غلط فہمی پیدا ہوئی۔
ہم دونوں نے اپنی بات ختم ہی کی تھی کہ ایک نوجوان دفتر میں داخل ہوا۔ السلام علیکم کے بعد اس نے کھڑے کھڑے کہا، ”مجھے مفتی ولی حسن صاحب سے ملنا ہے۔“ مفتی صاحب نے کہا، ”جی میں ہوں، بتائیے کیا مسئلہ ہے؟ میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟“ اس نے کہا، ”میں لانڈھی میں رہتا ہوں اور وہاں سے ایک مسئلہ پوچھنے کے لئے حاضر ہوا ہوں۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے آگے بڑھ کر ایک کاغذ ان کے آگے رکھ دیا۔ مفتی صاحب نے تحریر پڑھی اور مسکراتے ہوئے وہ کاغذ ہمارے سامنے رکھ دیا جو دراصل ایک استفتیٰ(سوال) تھا جس میں لکھا تھا، ”کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھے۔ ( اس میں وہی جملہ درج تھا جو انٹرویو میں نشر ہوا تھا) تو کیا وہ پھر بھی مسلمان ہونے کا دعویٰ کرسکتا ہے؟“
مفتی صاحب اس بات پر حیران ہو رہے تھے کہ ہم ابھی یہ بات کر ہی رہے تھے کہ یہ نوجوان وارد ہوگیا۔ مفتی صاحب نے اس نوجوان سے کہا، ”تم سوال چھوڑجاؤ اور اپنا پتا لکھ دو۔ ہم باری آنے پر اس کا مفصل جواب ڈاک سے بھیج دیں گے۔“ نوجوان نے کہا، ”نہیں مجھے تو ابھی فتویٰ چاہیے۔“ جب اس نے زیادہ اصرار بلکہ ضد کی تو مفتی صاحب نے کہا، ”اگر تمہیں جلدی ہے تو مہتمم صاحب سے مل لو، ہو سکتا ہے کہ وہ تمہارے مسئلے کا کوئی حل نکال دیں۔“ چناںچہ وہ ان کے کہنے پر سوال کا پرچہ وہیں چھوڑ کر مفتی احمد الر حمن سے ملنے چلا گیا۔ اس دوران میں مفتی صاحب نے ہم سے کہا کہ اس کے استفتیٰ کی فوراً فوٹو اسٹیٹ مشین سے کاپی کرا لو۔ ہم نے باہر جا کر کاپی کرائی اور چند منٹ میں واپس آکر اپنی جگہ پر بیٹھ گئے۔ اسی دوران میں وہ نوجوان بھی واپس آگیا۔ اس نے کہا، ”مفتی احمد الرحمن صاحب نے کہا ہے کہ فتویٰ جلدی دے دیں۔“ اس پر مفتی ولی حسن صاحب کو غصہ آگیا اور بولے، ”اگر تمہیں بہت جلدی ہے تو جاکر مفتی احمد الرحمن ہی سے فتویٰ لے لو۔ وہ بھی تو مفتی ہیں۔ میں تو طریقہ کے مطابق باری آنے پر ہی جواب دوں گا۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے، حوالے کی کتب دیکھنا ہوتی ہیں پھر فتویٰ لکھا جاتاہے۔
ہم استفتیٰ کی عبارت دیکھ کر معاملے کی تہ تک پہنچ چکے تھے کہ دراصل اس کے پیچھے کون ہے؟ اس لئے فیصلہ کیا کہ اس نوجوان کی آمد کی اصل حقیقت مفتی ولی حسن کی موجودگی میں بے نقاب کی جائے۔ چناںچہ ہم نے اس سے کہا کہ وہ اطمینان سے بیٹھ جائے، ہم اس مسئلے کا کوئی حل نکالتے ہیں۔ بعد ازاں ہم نے کہا کہ ”دیکھو! تم اسلامی ذہن و فکرکے مالک لگتے ہو۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ غلط بیانی نہیں کرو گے اور ہم جو پوچھیں گے اس کا صحیح جواب دو گے۔“ پھر اس سے سچ اگلوانے کے لئے مزیدکہا، ”جس جگہ تم بیٹھے ہو یہ اگرچہ مفتی صاحب کی لائبریری اور دفتر کا ایک کمرہ ہے لیکن یہ جامع مسجد بنوری ٹاؤ ن کے احاطے کے اندر ہی واقع ہے اور اس طرح یہ بھی مسجد ہی کا حصہ ہے۔ ہم سب اس وقت مسجد ہی میں بیٹھے ہیں۔ اس لئے توقع کرتے ہیں کہ سچ بولو گے۔
پھر ہم نے اس سے سوال جواب شروع کر دیئے۔ سب سے پہلے پوچھا، ”تم کیا کرتے ہو؟“ اس نے اونچی آواز میں بڑے طمطراق سے کہا، ”جی میں صحافی ہوں۔“ ہمیں خوشی ہوئی کہ اپنی برادری کا بندہ ہے۔ ہمارا اگلا سوال تھا، کس اخبار میں کام کرتے ہو ؟“ اس نے جواب دیا کہ وہ روزنامہ ”وفاق“ راول پنڈی میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرتا ہے۔ ہم نے اس کا ثبوت مانگا تو اس نے ادارے کا شناختی کارڈ دکھا دیا۔ واقعی اس کا کارڈ اصلی تھا۔اب ہمیں اس سے سوال جواب کرتے ہوئے مزہ آرہا تھا تاہم، اپنی صحافتی شناخت صیغہ راز ہی میں رکھی اور بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا، ”روزنامہ وفاق کے مالک غالباً مصطفی صادق ہیں اور راول پنڈی ایڈیشن کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر، ان کے بیٹے وقارالمصطفٰے ہیں؟“ یہ سن کر اس کی آواز تھوڑی دھیمی پڑی۔ اسے یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ تو اخبار کے مالک کو بھی جانتے ہیں۔
بہرحال اس کا انداز اب بھی جارحانہ تھا۔ ہم نے کہا، ”تم نے بتایا تھا کہ لانڈھی سے آئے ہو، جب کہ کام تو پنڈی میں کرتے ہو۔ کراچی میں یقیناً رشتے داروں سے ملنے کے لئے آئے ہوگے۔ تمہیں اس کام پر کس نے لگا دیا؟ تم تو کراچی میں مہمان ہو۔“ اس نے کہا، ”مجھے میرے ماموں نے بھیجا ہے۔“ اب ہم نے فیصلہ کیا کہ اس کے جھوٹ اور سچ کو اس کی زبان سے دو اور دو، چار کی طرح کھول کر مفتی صاحب کے سامنے رکھ دیا جائے۔ چناںچہ سیدھا سوال کیا، ”سچ سچ بتاؤ۔ اگر میں تم سے کہوں کہ تم لانڈھی سے نہیں آئے تو تمہارا کیا جواب ہوگا؟“ وہ پہلے تو کچھ دیر اپنی بات پر اَڑا رہا لیکن جب ہم نے جارحانہ رویہ اختیار کیا اور کہا، ”تم جھوٹ بول رہے ہو۔ تم ہرگز لانڈھی سے نہیں آئے۔“ تو وہ گڑبڑا گیا۔ پھر ہم نے یہ سوال پوچھ کر تو گویا اس کا سارا کروفر ہی نکال دیا، ”بھائی! تم کب تک جھوٹ بولو گے؟ تمہارے سوال کی تحریر خود بتا رہی ہے کہ اسے آدھا گھنٹہ پہلے لکھا گیا ہے۔ ابھی تو اس کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی۔ آدھے گھنٹے میں تو کوئی شخص تیز رفتار کار میں بھی لانڈھی سے یہاں نہیں پہنچ سکتا۔ یہاں پہنچنے میں ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ لگتا ہے۔ اب تم سچ سچ بتاؤ۔ کہاں سے آئے ہو اور تمہیں کس نے بھیجا ہے؟“ اس پر وہ بری طرح چکرا گیا مگر جگہ اور بھیجنے والے کا نام بتانے سے پھر بھی گریزاں ہی رہا۔ تاہم، اب اس کے چہرے کا رنگ اُڑ چکا تھا اور وہ سمجھ گیا تھا کہ اس کا راز فاش ہو چکا ہے۔
مفتی صاحب کے لئے ہمارا نوجوان سے یوں سوال کرنا اور وکیل کی طرح جرح کرنا بڑا حیران کن تھا۔ وہ اس صورت حال پر حیران تھے مگر ساتھ ساتھ اس سے لطف بھی لے رہے تھے۔ جب ایک بار پھر اس نے سچ بتانے سے پہلوتہی کی کوشش کی تو ہم نے اس سے آخری اور فیصلہ کن سوال کر دیا۔ ”اب ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ تم کہاں سے آئے ہو اور تمہیں کس نے بھیجا ہے۔“ پھر کہا، ”تم جہاں سے آئے ہو اگر کوئی نوجوان وہاں سے موٹر سائیکل پر یہاں آئے توپانچ منٹ میں، تیز قدموں سے پیدل چلے توپندرہ منٹ میں اور اگر آرام سے چلے توبیس، پچیس منٹ میں بآسانی پہنچ سکتا ہے اور یہ تحریر ٹھیک آدھ گھنٹہ پہلے لکھی گئی ہے۔“ اب وہ حیرت سے ہمارا منہ دیکھ رہا تھا۔ ہم نے مزید کہا، ”ہم تمہیں وہ جگہ اور اُس شخص کا نام بھی بتا سکتے ہیں جس نے تمہیں یہ تحریر لکھ کر دی اور اس ”نیک“ کام پر لگایا۔ تم بی ہائینڈ جیکب لائن میں اس جگہ سے آئے ہو جہاں لب سڑک حبیب بینک قائم ہے۔ اسی بلڈنگ میں ایک دفتر ہے جہاں ایک پڑھا لکھا شخص بیٹھا ہے۔ اُس کا نام بھی بتا دیا اور بتایا کہ اسی نے یہ سوال لکھا اور تمہارے حوالے کیا ہے۔ یہ تحریر اسی کی ہے۔“ اس پر مفتی صاحب اور نوجوان، دونوں پر گویا حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ نوجوان نے فوراً ساری باتیں قبول کر لیں اور شرمندہ ہوتے ہوئے کہا، ”جی آپ سچ کہہ رہے ہیں، میں اُن کے کہنے میں آگیا تھا۔“ اس نے بڑی کوشش کی کہ ہم اپنا تعارف کرا دیں لیکن ہم نے اپنا نام نہیں بتایا اور مفتی صاحب کو بھی اشارے سے منع کر دیا کہ وہ بھی نہ بتائیں۔ یوں وہ نوجوان اپنے منصوبے میں ناکام ہوکر واپس چلا گیا۔ مفتی صاحب نے کہا، ”دیکھو! ابھی تو ہم نے بڑی حکمت سے اس نوجوان کو ٹال دیا ہے لیکن فتنہ اٹھانے کے خواہش مند چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ وہ دوسرے علماءکے پاس جائیں گے اور فتویٰ لے کر اخبارات میں شائع کرا دیں گے۔ اس کا کوئی موثر حل نکالنا چاہیے۔“
پھر انہوں نے خود ہی تجویز کیا کہ اگر مولانا مودودی خود اِس انٹرویو کے متنازعہ حصے کی تفصیل سے وضاحت کر دیں تو فتنے کو بپا ہونے اور بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے۔ ہم نے اس سوال کی فوٹو کاپی لی اور ادارہ معارف اسلامی، فیڈرل بی ایریا میں سیّد منورحسن صاحب کے پاس پہنچے، جو اُس وقت ادارے کے ڈائریکٹر تھے، اُنہیں اِس واقعے کی پوری تفصیل بتائی اور مفتی ولی حسن کا پیغام پہنچایا کہ مولانا سے بات کرکے وضاحتی بیان جاری کیاجائے۔ سیّد منور حسن نے اُسی وقت اچھرہ، لاہور فون کیا۔ تھوڑی دیر بعد مولانا لائن پر تھے۔ سیّد منور حسن نے انہیں واقعے کی تفصیل بتائی اور سوال پڑھ کر سنایا، جس کے جواب میں مولانا نے وضاحت کی کہ ”یہ انٹرویو کوئی ڈھائی تین گھنٹے کا تھا جس کو ایڈٹ کرکے مختصر کر دیا گیا۔ اس مذکورہ سوال سے متعلق میری بات پوری طرح نشر نہ ہوسکی۔“ انہوں نے مفتی ولی حسن صاحب کی بات سے اتفاق کیا کہ وضاحت جاری ہونی چاہیے۔ تاہم، اُنہوں نے کہا، ”میری طرف سے مفتی ولی حسن کو سلام کہیں، ان کا شکریہ ادا کریں اور ان ہی سے عرض کریں کہ وہ خود پورا واقعہ لکھ کر اس کی وضاحت شائع کرا دیں۔ میری طرف سے ان کو اجازت ہے۔“ مولانا نے ان پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کر دیا تھا۔
چناںچہ ہم یہ ہدایات لے کر دوبارہ بنوری ٹاؤن آئے جہاں مفتی صاحب نے مولانا مودودی کی طرف سے وضاحتی بیان لکھا جو ہم نے دوسرے دن روزنامہ جنگ کے پہلے صفحے پر شائع کر دیا۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ بات اب ختم ہو گئی ہے لیکن جب دوسرے دن شام کو دفتر پہنچے تو معلوم ہوا کہ 43بریلوی علمائے کرام نے اسی استفتیٰ پر ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے، جو دوسرے دن کے اخبارات میں شائع ہوا۔ اسی دن کے اخبار جنگ میں بھی اندر کے صفحے پر ان کا یہ بیان شائع کیا گیا تھا۔ اصل میں دیو بندی علمائے کرام کا بیان حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد بریلوی علماءسے مشترکہ بیان حاصل کر لیا گیا تھا۔ مولانا کی وضاحت سے واقعی یہ معاملہ دب گیا اور زیادہ نہ پھیل سکا، اسی وجہ سے دیوبندی علماءسے فتویٰ یا کوئی مشترکہ بیان بھی جاری نہ ہو سکا جس میں ہماری بھی حقیر سی کو شش شامل تھی۔
مفتی ولی حسن سے ہمارا رابطہ ان کے انتقال تک جاری رہا۔ اور جب بھی اس واقعہ کا ذکر آتا تو ان کو ساری باتیں یاد آجاتیں اور کہتے کہ اس دن تو تم نے کمال کردیا تھا اور اپنی ذہانت سے ملک کو اور جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کو ایک بڑے فتنے سے بچا لیا تھا۔ مفتی ولی حسن شدید بیمار ہوئے اور کہی سال تک بستر تک محدود ہوگئے وہ دوسروں کی باتیں سن سکتے تھے لیکن بول نہیں سکتے تھے۔ ہم جب بھی ان کے پاس عیادت کےلئے جاتے تو ان سے اور باتوں کے علاوہ اس واقعہ کا بھی ذکر کرتے تو ان کی آنکھوں میں چمک آجاتی اور وہ خوش ہو کر مسکرانے کی کوشش کرتے۔