اسلام آباد:پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف کیس میں سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کی فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کر دی، سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری خزانہ کوعدالت طلب کرتے ہوئے سماعت پیر ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے انتخابات التواکیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ امید ہے پیر کی صبح خوشخبری لے کر آئے گی ،حکومت کو بھی ماضی بھلانا پڑے گا ،اسمبلیوں کی مدت ویسے بھی اگست میں مکمل ہو رہی ہے ، حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات ہوں تو کچھ دن وقفہ کر لیں گے ،اگر مذاکرات نہیں ہوتے تو آئینی کردار ادا کریں گے ،،ہم تو تنقید کا جواب بھی نہیں دے سکتے ،ججز کی اندرونی گفتگو عوام میں نہیں کرنی چاہیے ،درجہ حرارت کم کرنے والی آپشن پر ہی رہیں ،جلد ہی ان معاملات کو سلجھادیں گے ۔
چیف جسٹس نے پنجاب اور کے پی کے میں انتخابات کے التواءکے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 90 دن کا وقت اپریل میں ختم ہو رہاہے ، صدر نے 90 دن کی مدت کے 15 دن بعد تاریخ دی صدر کو الیکشن کمیشن نے حالات نہیں بتائے تھے ،صدر کو حالات سے آگاہ کیا ہوتا تو شائد 30 اپیل تاریخ نہ آتی ، عدالت کے سامنے مسئلہ 8 اکتوبر کی تاریخ کا ہے، عدالت مشکلات پیدا کرنے نہیں بیٹھی ہے ۔عدالت کو ٹھوس وجہ بتائیں یا ڈائیلاگ شروع کریں۔
چیف جسٹس نے کہاکہ ایک فریق پارٹی چیئرمین کی گارنٹی دے رہاہے ، شائد حکومت کو بھی ماضی بھلانا پڑے گا ،اسمبلیوں کی مدت ویسے بھی اگست میں مکمل ہو رہی ہے ، حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات ہوں تو کچھ دن وقفہ کر لیں گے ،اگر مذاکرات نہیں ہوتے تو آئینی کردار ادا کریں گے،عدالتی فیصلہ دیکھ کر آپ کو کہے گا کہ با اختیار فیصلہ ہے ، ہر فریق کے ہر نقطے کا فیصلے میں ذکر کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ 20 ارب کی اخراجات پر پہلے عدالت کو بتائیں ، اخراجات کم کرنے کی تجویز دی تھی ،دوسرا مسئلہ سیکیورٹی کا ہے ، نصف پولنگ اسٹیشن انتہائی حساس یا حساس ہیں، صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ ملک میں دہشتگردی ہے ، دہشتگردی تو 90 کی دہائی سے ہے ،عدالت کو بتایا گیا افواج بارڈر پر مصروف ہیں ،اس معاملے کو بھی دیکھنا ہوگا ۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آج عدالت کا جاری سرکلر دیکھا ہے ، جسٹس جمال مندو خیل کا نوٹ بھی پڑھا ہے ،جسٹس جمال مندو خیل بینچ سے الگ ہو چکے ہیں ،دوسرا نقطہ یکم مارچ کے فیصلے کے تناسب کا ہے ،تیسرا نکتہ یکم مارچ کے فیصلے کی بنیاد پر ہی ہے ،موجودہ درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی حکم ہے ،9 رکنی بینچ کے دو ارکان نے رضا کارانہ بینچ سے علیحدگی اختیار کی ، آپ کو کس نے کہا کہ دو ججز بینچ سے الگ ہوئے تھے ،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کا 27 فروری کا حکم پڑھیں، اس میں کہاں لکھاہے ؟اٹارنی جنرل نے 27 فروری کا عدالتی حکم پڑھ کر سنایا ،چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ چیف جسٹس کو بینچ کی از سر نو تشکیل کیلئے بھیجا گیا تھا ،چاہتا تو تمام ججز کو بھی تبدیل کر سکتا تھا ،آپ وہی کرنا چاہتے ہیں جس سے مسئلہ بنا تو یہ ہماری پرائیویسی مین مداخلت ہو گی ۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ نے کہا ججز نے سماعت سے معذرت نہیں کی تھی ،چیف جسٹس نے عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ میں نے اس حوالے سے کچھ نہیں کہا ، سماعت روکنے والا حکم ہم ججز آپس میں زیر بحث لائیں گے ،آپ درجہ حرارت کم کرنے والی بات کر رہے تھے ،ہم تو تنقید کا جواب بھی نہیں دے سکتے ،ججز کی اندرونی گفتگو عوام میں نہیں کرنی چاہیے ،درجہ حرارت کم کرنے والی آپشن پر ہی رہیں ،جلد ہی ان معاملات کو سلجھادیں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلے دن فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کی تھی ، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ اس نکتے پر دلائل ضرور دیں ،فل کورٹ والا معاملہ میرے ذہن میں تھا ،عدالتی بینچ بناتے وقت بہت کچھ ذہن میں رکھنا ہوتا ہے ،ایک بات یہ زہن میں ہوتی ہے کہ معمول کے مطابق متاثر نہ ہوں ،موجودہ دور میں روز نمٹائے گئے مقدمات کی تعداد بڑھ رہی ہے ،بعض اوقات تمام ججز دستیاب نہیں ہوتے ، گزشتہ ہفتے کوئٹہ ، کراچی اور لاہور میں بھی بنچ بنے تھے ۔
جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ اس ہفتے بھی لاہور میں بینچ تھا،9 رکنی بینچ تشکیل دیتے وقت تمام ججز کے بارے میں سوچا ،جسٹ اطہر من اللہ کو آئین سے ہم آہنگ پایا ہے ،جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی ، جسٹس مینب اختر آئین کے ماہر ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن بھی آئین کے ماہر ہیں ،آپ پوچھ سکتے ہیں جسٹس مظاہر نقوی کیوں شامل کیئے گئے، جسٹس مظاہرہ نقوی کو شامل کرنا خاموش پیغام دینا تھا ،جسٹس فائز عیسیٰ اور فائز عیسیٰ کیس دو سال چلا اور عدالت کو سزا ملی ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیلیے بھی مقدمہ سزا ہی تھا ،سیاسی معاملہ چل رہاہے ، جس بنیاد پر دیگر ججز کو نشانہ بنایاگیا ،تمام ججز کو سنی سنائی باتوں پر نشانہ بنایا جارہاہے ،سپریم کورٹ متحدہ تھی کچھ معاملات میں اب بھی ہے۔
جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ عدلیہ کس طرح متاثر ہو رہی ہے ، کوئی نہیں دیکھتا ،اہم عہدوں پر تعینات لوگ کس طرح عدلیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں، مجھے کہا جارہاہے ایک اور جج کو سزادوں ،جا کر پہلے ان شواہد کا جائزہ لیں ،سپریم کورٹ میں بیس سال کی نسبت بہترین ججز ہیں،جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس شاہد وحید کے فیصلے پڑھیں ،جسٹس شاہد وحید نے بہترین اختلافی نوٹ لکھا ہے،آڈیو لیک کی بنیاد پر کیسے نشانہ بنایا جائے ،قانون پر بات کریں تو میں بطور جج سنوں گا ،میرے ججز کے بارے میں بات کریں گے تو میرا سامنا کرنا پڑے گا ، میرا بھی دل ہے میرے بھی جذبات ہیں، جو کچھ کیا پوری ایمدانری سے اللہ کو حاضر ناظر جان کر کیا ، جو کچھ آج تک کیا آئین اور قانون کے مطابق کیا ، ٹیکس کا معاملہ ہے تو متعلقہ افسر کو کہیں ٹریس کریں، ٹیکس معاملے پر کیسے جج کا ٹرائل کریں، جسٹس اقبال حمید الرحمن کو استعفیٰ سے روکا تھا، جسٹس اقبال نے کہا مرحوم باپ کو کیا منہ دکھاﺅں گا۔