آزاد کشمیر کے ایک اور سیاست دان،جو توہین عدالت سے بال بال بچے

سجاد عباسی

یادش بخیر ۔۔
یہ 90 کی دہائی کے نصف آخر کا قصہ ہے۔ہم جنگ گروپ کے شام کے اخبار روزنامہ "عوام” سے بطور نیوز ایڈیٹر منسلک تھے۔اس زمانے میں اخبار ہی تشہیر یا عوام تک رسائی کا واحد ذریعہ تھا۔چنانچہ اخبارات کے دفاتر میں اہم شخصیات کی آمد کا سلسلہ اسی طرح جاری رہتا تھا جیسے آج کل ٹی وی چینلز کے اسٹوڈیوز میں رونق میلہ رہتا ہے۔ان سیاست دانوں میں سے ایک آزاد کشمیر کے سینئر وزیر اور کچھ عرصہ قائم مقام وزیر اعظم کے فرائض انجام دینے والے باوقار سیاستدان صاحبزادہ اسحاق ظفر بھی تھے ،جو ہمارے ایڈیٹر اور نامور صحافی وتجزیہ کار نذیر لغاری صاحب کے دوست تھے۔وہ جب بھی کراچی تشریف لاتے ،لغاری صاحب سے ملاقات ضرور کرتے۔مگر اس باراس ملاقات کی غرض وغایت الگ  اور ہنگامی نوعیت کی تھی۔
آزاد کشمیر کی سیاست پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ صاحبزادہ اسحاق ظفر پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کے صدر اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے معتمدین میں سے تھے۔بلا کے مقرر ، سنجیدہ اور زیرک سیاستدان تھے۔خود بینظیر بھٹو ان کی ان کے خطابانہ جوہر کی معترف تھیں۔ یہ 90 کی دہائی کا آخری حصہ تھا۔ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی حریف کے طور پر میدان میں تھیں۔ سیاست میں محاذ آرائی عروج پر تھی، بلکہ اس حوالے سے 90 کی دہائی کی مثالیں اب بھی دی جاتی ہیں ، مگر اس وقت تک سیاست کی آنکھوں میں حیا کسی قدر باقی تھی، بقدر اشک بلبل ہی سہی۔ہمارے ہاں دیگر شعبوں کی طرح عدلیہ کا کردار بھی بطور مجموعی کبھی قابل رشک نہیں رہا ،مگر پھر بھی اس کا بھرم اور دبدبہ کسی حد تک قائم تھا کیونکہ اندر اور باہر سے اس کی بے توقیری کا چلن  یوں عام نہ تھا۔اب تو ہر کوئی آتے جاتے اس کا آنچل کھینچنے کی کوشش کرتا ہے ۔

اگرچہ "کینگرو کورٹس” کی اصطلاح بھی انہی دنوں ایجاد ہوئی تھی ،جب بینظیر بھٹو عدالتی فیصلوں سے شا کی تھیں اور اکثر یہ کہتی سنائی دیتی تھیں کہ پنجاب اور سندھ کے لئے عدلیہ کے معیار الگ الگ ہیں۔ ظاہر ہے اس شکوے شکایت کا طویل پس منظر بھی تھا۔1996 کے آخری حصے میں جب خود پیپلز پارٹی کے صدر مملکت فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کی تو کچھ عرصے بعد انہوں نے عوامی رابطہ مہم شروع کردی۔اسی سلسلے کا ایک احتجاجی جلسہ کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں منعقد ہوا جہاں محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ کئی دیگرسینئر سیاست دانوں کے علاوہ پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کے صدر صاحبزادہ اسحاق ظفر بھی تھے،جو اپنی قائد کی موجودگی میں جوش جذبات میں عدلیہ کے حوالے سےکچھ سخت اور توہین آمیز جملے کہہ گئے،

تب صحافیوں کے پاس موبائل فون یا ریکارڈر ہوتے تھے نہ ٹی وی چینلز کے کیمروں کی بھرمار تھی۔چانچہ فوٹیج بطور ثبوت پیش کی جا سکتی تھی،نہ فوٹو شاپ کے ذریعے کسی کو بے لباس کرنے کا کوئی اہتمام تھا،اور نہ ہی آڈیو ویڈیو لیک کا بازار گرم ہوتا تھا،مگر اخبار میں شائع ہونے والی خبر کا ایک اعتبار باقی تھا۔ ایک اردو اخبار میں عدلیہ پر الزام و دشنام کی خبر چھپ گئی اور سپریم کورٹ نے نوٹس لے لیا۔عدالت عظمی کی کراچی رجسٹری میں توہین عدالت کی کارروائی شروع ہوگئی۔عدالت نے متعلقہ رپورٹر اور ہمارے دوست آغا خالد کو بلا کر ثبوت طلب کیے تو انہوں نے کاغذ پر لکھے نوٹس دکھا دیئے۔عدالتی کارروائی حتمی مرحلے کی جانب بڑھنےلگی۔ فرد جرم قریب تھی کہ صاحبزادہ اسحاق ظفرمرحوم  اپنے دوست اور ہمارے مدیر نذیر لغاری صاحب سے مشاورت کیلئے ہانپتے کانپتے ہمارے دفتر پہنچے، انہیں مشورہ دیا گیا کہ غیر مشروط معافی مانگیں اور خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں۔ وہ لغاری صاحب کو ساتھ لے جانے پر مصر تھے مگر مدیر محترم نے "ملزم” کی حوصلہ افزائی کی بھاری ذمہ داری ہمارے ناتواں کاندھوں پر ڈال دی۔

سو ہم دفتر سے چند سو میٹر دور سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں صاحبزادہ اسحاق ظفرکے ہمراہ جسٹس سلیم احمد کی عدالت میں پیش ہوئے،خوف اورندامت "ملزم ” کے چہرے سے ہویدا تھی ، عدالت عظمی کے بلند درودیوار کےاندر یخ بستہ ماحول میں بھی ان کے ماتھے پر پسینے کے قطرے دیکھے جا سکتے تھے ۔انہوں نے عدالت عظمی سے غیر مشروط معافی مانگی، جو سرزنش کے بعد قبول کر لی گئی۔اسحاق ظفر کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ ،نہ تھا ۔یوں لگتا تھا کہ سزائے موت کے کسی قیدی کو تختہ دار پر جاتے جاتے رہائی کا پروانہ مل گیا ہو۔یہ اس وقت کا ماحول تھا ،جب عدالت عظمیٰ کا کچھ دبدبہ بھی باقی تھا اور سیاست دانوں کو بھی اپنے نام اور مقام کا کچھ پاس تھا۔ گالم گلوچ اور الزام و دشنام پر فخر نہیں کیا جاتا تھا۔اب تو مخالف یا حریف کو جب تک دو چار بھاری بھرکم گالیاں نہ دے دی جائیں ، کلیجہ ٹھنڈا نہیں ہوتا اور دوست احباب آپ کو بزدل سمجھتے ہیں ، پھر پارٹی قیادت کے سامنے آپ کی عزت "دو ٹکے” کی نہیں رہ جاتی۔

آپ کو کس نے کہا عدالتوں سے متعلق ایسے بیانات دیں؟ فائل فوٹو
سردار تنویر الیاس ۔۔ فائل فوٹو

 

ہمیں یہ واقعہ آزاد کشمیر کے کھرب پتی وزیر اعظم تنویر الیاس کی توہین عدالت کیس میں نااہلی پر یاد آیا جنہوں نے ہائی کورٹ کے فیصلے پر سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کے بعد پوری گھن گرج کے ساتھ ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ "کوئی ” انہیں کمزور نہ سمجھے۔وہ ایسے عہدے کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں جس پر رہتے ہوئے "عزت ” پر سمجھوتا کرنا پڑے۔گویا ندامت کا عنصر سراسر ناپید نظر آتا ہے۔البتہ قبل ازیں موصوف نے ہائی کورٹ سے احتیاطا” معافی مانگ لی تھی تاکہ بزنس کیپیٹل کی بنیاد پر حاصل کردہ "سیاسی کیپیٹل” بچایا جا سکے۔ جسے ہائی کورٹ نے تو قبول نہیں کیا، ممکن ہے تازہ فرمودات کے بعد سپریم کورٹ غور کر لے۔ فی الوقت تنویر الیاس ہائبرڈ نظام کے تحت حاصل کردہ وزارت عظمی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جو  ان کی جماعت پی ٹی آئی کے لئے بڑا دھچکا ہے جسے جہانگیر ترین کی جدائی کے بعد تنویر الیاس کی مسیحائی نے یک گونہ اطمینان کی دولت سے مالامال  کر رکھا تھا۔چنانچہ ان کی حکومت "جوڑنے” کیلئے بھان متی نے جانے کہاں کہاں سے اینٹ اور روڑے جمع کئے تھے ۔مگر دوسری طرف تنویر الیاس ایک بڑے طبقے کے "ہیرو” بن کر ابھرے ہیں، جو ان تمام چیزوں کو مزاحمت اور جدوجہد کی علامت سمجھتا ہے جو دو تین دہائیاں پہلے تک ندامت کاباعث سمجھی جاتی تھیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک اخبار نے یہ سرخی بھی جمائی ” سردار تنویر الیاس نے توہین عدالت پر نا اہل ہو کر تاریخ رقم کر دی”