اسلام آباد: حکمران اتحاد نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل سے متعلق درخواست پر عدالت عظمیٰ کا 8 رکنی بینچ مسترد کر دیا۔
وفاقی وزیر قانون اعظم تارڑ نے حکران اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ پروسیجر اینڈ پریکٹس بل صدر مملکت کو بھجوایا، انہوں نے آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے آرٹیکل 75 کے تحت بل واپس کر دیا کہ مختلف شقوں کو جوائنٹ سیشن میں ڈسکس کیا جائے،پارلیمنٹ نے نظرثانی کے بعد بل دوبارہ منظوری کیلیے صدر کو بھجوایا جو صدر 19 یا 20 اپریل تک ایگزامن کر سکتے ہیں۔ صدر نے دستخط نہیں کیے،اس لیے ابھی تک مذکورہ بل ایکٹ آف پارلیمنٹ نہیں بنا۔
انہوں نے کہا کہ بل ابھی پاس نہیں ہوا اور سپریم کورٹ نے 8 رکنی بینچ تشکیل دیدیا گیا، بینچ کی تشکیل میں سنیارٹی کا اصول نظر انداز کیا گیا ،عجلت میں درخواست دائر ہوئی اور سلیکٹڈ بینچ بنا دیا گیا۔ بینچ میں بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی نمائندگی نہیں، چیف جسٹس کی بینچ میں موجودگی مفادات کا ٹکراؤ ہے لہذا بینچ کو مسترد کرتے ہیں، اسے تحلیل کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹکراؤ کی کیفیت پارلیمان کی طرف سے نہیں، قانون سازی پارلیمان کا حق ہے ، اپنے حق کا تحفظ کرنا جانتے ہیں۔ قانون سازی کے اختیار میں اداروں کی بے جا مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے بینچ کی تشکیل پارلیمان کو قانون سازی سے روکنے کے مترادف ہے، دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا اس لئے یہ قابل قبول نہیں۔ بینچ کے طریقہ کار پر تحفظات ہیں، درست کیا جائے۔
اے این پی کے رہنما میاں افتخار کا کہنا تھا کہ صدر مملکت پی ٹی آئی کے صدر بنے ہوئے ہیں، سینئر جج کا بینچ بننا چاہیے تھا، اس بینچ میں ایسے جج رکھے گئے ہیں جن پر اعتراض ہے۔ فل کورٹ سے کیوں ڈرتے ہیں کیا آپ کو دوسری رائے پسند نہیں۔ لوگوں کو واضح سمجھ آ رہا ہے کہ یہ بینچ کیوں بنا۔ یہ بینچ درست نہیں، نظر ثانی کی جائے۔
قانون دان اور سینیٹر کامران مرتضٰی کا کہنا تھا کہ کبھی ایسا اقدام دیکھا نہ سوچا تھا، بطور وکیل بینچ کی تشکیل پر حیرت، تشویش اور دکھ ہوا۔