آزاد کشمیرکی وزارت عطمٰی کا ہماکس کے سربیٹھے گا؟  

سجاد عباسی

ڈیڑھ سالہ مدت میں دو وزرائے اعظم کی اقتدار سے محرومی کے بعد آزاد کشمیر میں اب ہما کس کے سر بیٹھے گا، اس کا فیصلہ اگلے چند گھنٹوں میں ہو جائے گا جب قانون ساز اسمبلی آج قائد ایوان منتخب کرے گی جہاں چوہدری یاسین وزارت عظمی کیلئے پاکستان پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے متفقہ مضبوط امیدوار بن کر سامنے آئے ہیں جن کا دعوی ہے کہ وہ وزیر اعظم منتخب ہونے کیلئے 52 کے ایوان میں 30 ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔اگرچہ تحریک انصاف کے ذرائع چوہدری رشید پر بطور امیدوار اتفاق کا دعوی کر رہے ہیں تاہم پارٹی میں دھڑے بندی کے باعث رات گئے تک مختلف ناموں پر کشمکش جاری تھی۔

واضح رہے کہ قانون ساز اسمبلی 53 ارکان پر مشتمل ہے جن میں 41 جنرل اور 12 مخصوص نشستیں شامل ہیں، وزیراعظم تنویر الیاس کی نااہلی کے بعدیہ تعداد 52 ہوگئی ہے۔اس طرح وزیراعظم بننے کے لیے 27 ووٹ درکار ہوں گے۔ ماضی میں مصنوعی انتظام کے تحت اقتدار حاصل کرنے والی تحریک انصاف ٹوٹ پھوٹ اور دھڑے بندی کا شکار ہوگئی ہے اور قانون ساز اسمبلی میں اس کا فارورڈ بلاک بن گیا ہے۔ وزارت عظمی کے لیے تحریک انصاف کے امیدوار کے طور پر چوہدری رشید سامنے آئے ہیں۔ تاہم یہ سطور لکھے جانے تک جوڑ توڑ کا عمل جاری تھااور پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف دونوں اپنی اپنی جگہ اکثریت کے دعوے کر رہی تھیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ سابق حکمران جماعت تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وزیراعظم کے لئے تین نام اپنے پارٹی رہنماؤں کو دیے تھے جن میں سینئر وزیر اور قائم مقام وزیراعظم خواجہ فاروق کے علاوہ چوہدری انوارالحق اور اظہر صادق شامل ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے اصل امیدوار آخرالذکر یعنی اظہر صادق ہی تھے جومالی لحاظ سے مستحکم پارٹی ہیں اور تنویر الیاس کا متبادل ثابت ہو سکتے ہیں۔ تاہم عمران خان کی نمائندگی کے لیے جوڑتوڑ کی خاطر مظفرآباد پہنچنے والے سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور سابق وزیر دفاع پرویز خٹک کو اپنی ہی جماعت کے باغی گروپ کی مزاحمت کا سامنا ہے اورچوہدری رشید کو وزارت عظمیٰ کے لیے تحریک انصاف کا امیدوار نامزد کرنے کے لیے دباؤ زیادہ ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ وزارت عظمیٰ کے لئے تنویر الیاس کے اصل امیدوار دیوان فاروق چغتائی تھے تاہم انہوں نے بھی چوہدری رشید کی حمایت پر آمادگی ظاہر کر دی ہے جو درحقیقت صدر آزاد کشمیر بیرسٹر سلطان کے امیدوار ہیں۔ ذرائع کے مطابق بیرسٹر سلطان کی نظریں اب بھی وزارت عظمی کی کرسی پر ہیں اور چوہدری رشید کی جگہ آئندہ چند ماہ میں اس عہدے پر متمکن ہونا ان کا ہدف ہے۔

یاد رہے کہ آزاد کشمیر کے الیکشن کے بعد وزارت عظمی کیلئے اصل جنگ بیرسٹر سلطان اورتنویر الیاس کے درمیان ہی ہوئی تھی جس میں ابتدائی طور پر عبدالقیوم نیازی غیر متوقع امیدوار کے طور پر سامنے آ گئے تھےجن کی حکومت چھ ماہ بھی نہیں چلنے دی گئی۔ اس سے پہلے بیرسٹر سلطان کو صدر بنا کر تنویر الیاس کا راستہ صاف کر دیا گیااور بعد ازاں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے تنویر الیاس وزیراعظم بن گئے تھے تاہم ان کی حکومت بھی سال پورا ہونے سے پہلے ہی توہین عدالت پر فارغ ہوگئی۔ اگرچہ تحریک انصاف آزاد کشمیر اسمبلی میں اکثریت کی بنیاد پر اب بھی وزارت عظمی کے حصول میں کامیابی کا دعویٰ کر رہی ہے تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ فارورڈ بلاک کی بنیاد پر اسےپارٹی ارکان کے ٹوٹنے کا خدشہ ہے اور وزارت عظمی کے لئے چوہدری یاسین ہی اب تک مضبوط ترین امیدوار ہیں جنہیں پیپلز پارٹی کے 12 ،مسلم لیگ نون کے سات، جموں کشمیر پیپلز پارٹی اور مسلم کانفرنس کے ایک ایک رکن کی حمایت حاصل ہے ، اس طرح انھیں کامیابی کے لیے مزید 6ووٹ درکار ہیں جس کے لئے وہ تحریک انصاف کے فارورڈ بلاک کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے برعکس آزاد کشمیر میں فلور کراسنگ کا قانون موثر نہیں ہے، لہذا فارورڈ بلاک کے اراکین یا کوئی بھی رکن اسمبلی انفرادی طور پر دوسری جماعت کے امیدوار کو ووٹ دے سکتا ہے۔ یاد رہے کہ جمعہ کے روز قانون ساز اسمبلی میں قائد ایوان کا انتخاب ہونا تھا تاہم کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔قانون ساز اسمبلی میں اس وقت 52 ارکان ہیں جن میں سے 31 کا تعلق تحریک انصاف سے ہے ، 12پیپلزپارٹی اور سات کا تعلق نون لیگ سے ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے درمیان پاور شیئرنگ فارمولے کے تحت آزاد کشمیر کا وزیراعظم پیپلزپارٹی سے ہوگا۔ہواؤں کا رخ بدلتا دیکھ کرحکمران جماعت آزاد کشمیر میں اپنی حکومت بننے کے لیے پر امید ہے، جبکہ دوسری طرف تحریک انصاف کا دعوی ہے کہ دوبارہ اسی کا وزیراعظم آئے گا تاہم اس کا حق میں فیصلہ آج ہو جائے گا۔

چوہدری یاسین کو بیرسٹرسلطان کی مخالفت کا سامنا۔کیا زرداری فارمولا بروئے کار آئے گا؟

عمران خان واپس وہاں جانا چاہتا ہے جہاں سے اسے نکالا گیا ہے۔فائل فوٹو
عمران خان واپس وہاں جانا چاہتا ہے جہاں سے اسے نکالا گیا ہے۔فائل فوٹو

اگرچہ پیپلز پارٹی کےچوہدری یاسین آزادکشمیر کی وزارت عظمی کے لئے فیورٹ امیدوار ہیں تاہم ان کا بڑا انحصار تحریک انصاف کے فارورڈ بلاک پرتھا جنہیں اپنے حق میں ووٹ دینے کے عوض انہوں نے منہ مانگی وزارتیں دینے کا بھی وعدہ کیاتھا تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر بیرسٹر سلطان ،چوہدری یاسین کے حق میں نہیں ہیں۔انہوں نے پیپلزپارٹی کو پیشکش کی تھی کہ اگر وہ سابق صدر حاجی یعقوب خان کو وزارت عظمی کے لیے سامنے لاتے ہیں تو وہ گیارہ ارکان اسمبلی کی حمایت فراہم کریں گےتاہم پیپلز پارٹی کی قیادت کا کہنا تھا کہ انہوں نے اتفاق رائے سے چوہدری یاسین کو وزیر اعظم کا امیدوار نامزد کر دیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر آزاد کشمیر میں پیپلزپارٹی کا وزیراعظم لانے کے لئے آخری چند گھنٹوں میں بھی "زرداری فارمولا ” بروئےکار آتا ہےاور تحریک انصاف کے چندارکان اپنا وزن پیپلزپارٹی کے پلڑے میں ڈال دیتے ہیں توچوہدری یاسین کا وزیراعظم بننا یقینی ہوگا۔ واضح رہے کہ مسلم لیگ ن بھی چوہدری یاسین کی حمایت کر رہی ہے ،اگرچہ نوازلیگ نے رسمی طور پر راناغلام قادر کو امیدوار نامزد کیا تھا۔

 

اسمبلی ارکان فلور کراسنگ کیلئے آزاد ہیں؟


آئینی ماہرین کے مطابق جب تک آئین میں ترمیم کر کے نیا قانون نہیں لایا جاتا آزاد کشمیر کےارکان اسمبلی اپنی مرضی سے نئے قائد ایوان کے انتخاب میں آزاد ہیں، ان پر کسی بھی جماعت کی پابندی لاگو نہیں ہوتی۔ آزاد کشمیر کے عبوری آئین ایکٹ 1974ء کے آرٹیکل 34 کے سیکشن 3 اور 4 میں ممبر کو قانون ساز اسمبلی کے اندر کی کارروائی کے حوالے سے مکمل آئینی تحفظ حاصل ہے۔جسے کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا- عمومی طور پر آزاد کشمیر میں کسی بھی رکن اسمبلی کی نا اہلیت کے لیے الیکشن آرڈیننس 1970ء سیکشن 5 کی سب سیکشن 3 کے تحت ماضی میں دیئے گئے ایک فیصلے کا حوالہ دیا جاتا ہے جو مرحوم کرنل نقی کیس میں دیا گیا۔ اب یہ قانون ہی موجود نہیں رہا کیونکہ الیکشن آرڈیننس 1970ء کو الیکشن ایکٹ 2020ء کے ذریعے تبدیل کیا جا چکا ہے.