انتخابات کیس: عدالت مذاکرات کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی، چیف جسٹس

اسلام آباد (امت نیوز) ملک کی تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کے معاملے پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو خود اقدام اٹھاتی، مذاکرات کرنے پر عدالت مجبور نہیں کر سکتی۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الااحسن ، جسٹس منیب اختر پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے ملک بھر میں ایک دن الیکشن کرانے کی درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور اعوان روسٹرم پر آگئے اور عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ 19 اپریل کو حکومت اور اپوزیشن میں پہلا رابطہ ہوا، 26 اپریل کو ملاقات پر اتفاق ہوا تھا، 25 اپریل کو ایاز صادق اور خواجہ سعد رفیق کی اسد قیصر سے ملاقات ہوئی۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اسد قیصر نے بتایا کہ وہ مذاکرات کیلئے با اختیار نہیں ہیں، گزشتہ روز حکومتی اتحاد کی ملاقاتیں ہوئیں، دو جماعتوں کو مذاکرات پر اعتراض تھا لیکن راستہ نکالا گیا، چیئرمین سینیٹ نے ایوان بالا میں حکومت اور اپوزیشن کو خطوط لکھے ہیں، انہوں نے حکومت اور اپوزیشن سے چار 4 نام مانگے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسد قیصر کے بعد کیا کوشش کی گئی کہ کون مذاکرات کیلئے بااختیار ہے؟، جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ منگل کو میڈیا سے معلوم ہوا کہ شاہ محمود قریشی مذاکرات کیلئے با اختیار ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ چیئرمین سینیٹ سے کس حیثیت سے رابطہ کیا گیا؟، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سینیٹ وفاق کی علامت ہے اس لئے چیئرمین سینیٹ کو کہا گیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ گزشتہ روز 19 اپریل کو چیمبر میں آپ سے ملاقات ہوئی، ہمارے ایک ساتھی کی عدم دستیابی کے باعث 4 بجے سماعت نہیں ہوئی تھی، فاروق ایچ نائیک نے کہا تھا چیئرمین سینیٹ سہولت کاری کریں گے، چیئرمین سینیٹ نہ حکومت کے نمائندے ہیں نہ اپوزیشن کے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو خود اقدام اٹھاتی، مذاکرات کرنے پر عدالت مجبور نہیں کر سکتی، عدالت صرف آئین پر عمل چاہتی ہے تاکہ تنازع کا حل نکلے، عدالت کو کوئی وضاحت نہیں چاہیے، صرف حل بتائیں، چیئرمین سینٹ اجلاس بلائیں گے اس میں بھی وقت لگے گا۔