کوئی ریاست خانہ جنگی کی اجازت نہیں دے سکتی- پالیسی سازوں کے پاس ہمیشہ متبادل پلان موجود ہوتے ہیں- فائل فوٹو
کوئی ریاست خانہ جنگی کی اجازت نہیں دے سکتی- پالیسی سازوں کے پاس ہمیشہ متبادل پلان موجود ہوتے ہیں- فائل فوٹو

تصادم انارکی میں بدلا تو نظام لپیٹ دیا جائے گا

امت رپورٹ :
وفاقی حکومت اور تحریک انصاف کے مابین مذاکرات بظاہر ناکامی سے دوچار دکھائی دے رہے ہیں۔ کل اس بات چیت کا فائنل رائونڈ متوقع ہے۔ لیکن اس سے پہلے ہی پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے لانگ مارچ کا عندیہ دے دیا ہے۔ دوسری جانب حکومت اور عدلیہ میں جاری تنازع مزید سنگین ہونے کے خدشات ہیں۔ ایسے میں تصادم کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔

پالیسی سازوں سے راہ و رسم رکھنے والے ذرائع کے مطابق اگر حالات مزید کشیدہ ہوتے ہیں اور خدانخواستہ ملک میں افراتفری پھیل جاتی ہے تو پھر اس نظام کو لپیٹا جا سکتا ہے۔ کیونکہ کوئی ریاست انارکی افورڈ نہیں کر سکتی۔ سول وار کی کون اجازت دیتا ہے جو شام، عراق، یمن اور افغانستان جیسے ملک کھاگئی۔ ان ذرائع کے بقول انارکی ویسے بھی پاکستان کے لیے نقصان دہ ہے۔ خاص طور پر جب ہمارا روایتی دشمن بھارت اس ممکنہ صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے تاک میں بیٹھا ہوا ہے۔ اگر ایسا مرحلہ آ جاتا ہے تو پھر پی ڈی ایم سے انڈر اسٹینڈنگ کے ساتھ کوئی ٹائم پیریڈ طے کیا جا سکتا ہے کہ ماضی کی طرح نو، دس برس کے بجائے دو، ڈھائی سال کے لئے مختصر مدت کا مارشل لا لگا کر عدالتی اور دیگر اہم اصلاحات کی جائیں اور پھر شفاف الیکشن کرادیے جائیں۔ اس دوران جن کی نااہلی ہونی ہوگی، وہ بھی ہو جائے گی۔

ذرائع کے بقول اس طرح کے دو تین متبادل پلان ہمیشہ پالیسی سازوں کے پاس موجود رہتے ہیں۔ اس سوال پر کہ اگر مختصر مدت کا مارشل لا بھی لگایا جاتا ہے تو کیا امریکہ اور یورپ اسے قبول کر لیں گے؟جبکہ ایسی صورت میں آئی ایم ایف سمیت دیگر بین الاقوامی مالیاتی ادارے بھی پاکستان کو قرضہ اور امداد دینا بند کرسکتے ہیں۔ یوں ملک کی معیشت پہلے جو ہی ڈوب رہی ہے اگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے ہاتھ کھینچ لیا تو ہم کیسے افورڈ کر پائیں گے؟ ذرائع کا کہنا تھا کہ اگر پلان پر عمل کا فیصلہ کرلیا گیا تو چین کی شکل میں اس کا متبادل انتظام موجود ہے۔ چین کے لیے پاکستان کو پندرہ بیس ارب ڈالر دینا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ اس صورت میں پاکستان کو آئی ایم ایف کے پروگرام کی بحالی اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرض لینے کی فی الحال ضرورت نہیں رہے گی۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ اب یہ سیاست دانوں اور بالخصوص پی ٹی آئی کے ہاتھ میں ہے کہ وہ حالات کو اس نہج پر نہ لے کر جائیں کہ ملک میں خدانخواستہ انارکی پھیل جائے یا خانہ جنگی کی کیفیت ہوجائے۔ بصورت دیگر ریاست بچانے کے لیے کوئی بھی غیر جمہوری قدم اٹھایا جانا خارج از امکان نہیں۔

اس سنگین صورت حال میں پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے دھمکی دی ہے کہ حکومت سے مذاکرات میں ناکامی پر تاریخی لانگ مارچ ہوگا۔ ایک ٹویٹ میں پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف مذاکرات کی کامیابی چاہتی ہے، لیکن ناکامی کی صورت میں حکمت عملی مرتب کرلی ہے۔ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں عوام بڑی تحریک کے لئے تیار ہوجائیں۔ تحریک کا آغاز آج پیر سے لاہور، اسلام آباد اور پشاور میں ریلی سے ہورہا ہے۔ اس کا نقطہ عروج ایک تاریخی لانگ مارچ سے ہوگا۔ یہاں یہ بتاتے چلیں کہ گیارہ مئی سے تحریک لبیک نے بھی اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا ہے۔ اگرچہ تحریک لبیک کا یہ احتجاج مہنگائی کے خلاف ہے۔

تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر احتجاج کرنے والے تحریک انصاف اور تحریک لبیک کے کارکنان آمنے سامنے آگئے تو تصادم خارج از امکان نہیں۔ دوسری جانب حکومت نے اس بار تحریک انصاف کو کسی قسم کی رعایت نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اگر تحریک انصاف اپنی دھمکی پر عمل کرتے ہوئے ایک بار پھر سڑکوں پر نکلتی ہے اور اسلام آباد کا رخ کرتی ہے تو قانون ہاتھ میں لینے والوں کے ساتھ پوری طاقت سے نمٹا جائے گا۔ ادھر ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ پنجاب الیکشن کیس میں عدلیہ کی طرف سے کسی سخت فیصلے کی صورت میں جے یو آئی بھی سڑکوں پر نکلنے کا پلان رکھتی ہے۔ اس مجموعی سیناریو میں آنے والے دن پاکستان کی سیاست میں خاصے ہنگامہ خیز ہوسکتے ہیں۔

اس ساری صورتحال پر معروف دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈئیر ( ر ) آصف ہارون راجہ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنی حکومت سے پہلے اور اس کے دوران سیاست کو فوجی اسٹیبلشمنٹ کے حوالے کردیا تھا۔ مؤخر الذکر کو سیاسی انجینئرنگ اور سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لیے گھناؤنے حربے استعمال کرنے کی ترغیب دی گئی۔ جنرل باجوہ، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اور چیف جسٹس ثاقب نثار کی ٹرائیکا، مسلم لیگ (ن) کو گرانے اور کسی بھی صورت اقتدار پی ٹی آئی کے حوالے کرنے کے مشن پر تھی۔

یہ تینوں اب اپنے اقدامات کی قیمت چکا رہے ہیں۔ تب ملٹری، جوڈیشل ایکٹوازم اور امتیازی سلوک نے پوری فضا کو خراب کر دیا تھا اور یہ اس ٹرائیکا کی حد درجہ غیر نصابی سرگرمیوں اور انڈر ہینڈ شرارت کا نتیجہ ہے، جس نے بہت سارے مسائل اور موجودہ سیاسی تعطل کو جنم دیا ہے۔

جبکہ اس کے بر عکس جنرل عاصم منیر نے پرانی پالیسی کو ترک کر دیا ہے اور وہ غیر سیاسی رہنے کے لیے پرعزم ہیں۔ اس معاملے میں ان کی کور ٹیم بشمول ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم، ان کے ہمنوا ہیں ۔ دوسری جانب چیف جسٹس عمر عطا بندیال اپنے پیشرو کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں۔ جبکہ پی ٹی آئی قبل از وقت انتخابات سے متعلق اپنے مطالبے سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں، جس کی وجہ سے ابلتا ہوا سیاسی لاوا ٹل نہیں رہا۔ میڈیا کا ایک حصہ اور امن کو خراب کرنے والے دیگر عناصر لاوے پر تیل چھڑکنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے درمیان جاری تعطل دھماکہ خیز شکل اختیار کر گیا ہے۔ آصف ہارون کے بقول اگر یہ لاوا پھٹتا ہے تو فوج کو بے دریغ قدم اٹھانا پڑے گا۔ بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ جنرل عاصم منیر اقتدار پر قبضہ کریں اور کم از کم ایک سے تین سال کے لیے سخت مارشل لا کا اعلان کریں۔ اس کے بعد منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کے انعقاد سے پہلے بدعنوانوں کو ختم کرنے کے لیے مکمل سرجری کریں، اور جامع اصلاحات کریں۔

تین بڑوں کے ٹرائیکا نے ملک کو ان حالات میں پہنچایا- ابلتا سیاسی لاوا پھٹ گیا تو فوج کو بے دریغ قدم اٹھانا پڑے گا۔