کراچی (رپورٹ : سید نبیل اختر) جامعہ کراچی سے گزرنے والی 36 انچ قطر کی مین ٹرنک لائن 22 مقامات سے لیک ہوگئی ، لائن چارج کرنے سے لاکھوں گیلن پانی ضائع ہوگیا ۔ واٹر بورڈ انتظامیہ نے مرمت کیلئے لائن بند کردی ۔اسکیم 33 اور اطراف کے مکینوں کو 72 گھنٹے پانی فراہم نہیں کیا جاسکے گا ۔ تفصیلات کے مطابق گرمی کے باعث پانی کی زیادہ دستیابی کے لیئے واٹر بورڈ کی مین ٹرنک لائن زیادہ چارج کرنا پڑ رہی ہے جس کی وجہ سے جامعہ کراچی سے گزرنے والی 36 انچ قطر کی مین ٹرنک لائن کو سردیوں کے مقابلے میں زیادہ چارج کیا جارہا تھا تاکہ اسکیم 33 کے رہائشیوں کو پانی کی فراہمی ممکن بنائی جاسکے ، ذرائع نے بتایا کہ لائن چارج ہونے کی وجہ سے جامعہ کراچی میں مختلف مقامات پر لیکج کے باعث لاکھوں گیلن پانی ضائع ہورہا تھا اور مکینوں کو پانی نہیں مل پارہا تھا ، اس ضمن میں علاقہ مکینوں نے احتجاج بھی کیا ، بعدازاں کراچی یونیورسٹی کے اندر ریزروائر 36 انچ ڈایا لائن میں لیکیجز والے معاملے پر سی ای او واٹر بورڈ انجینئر سید صلاح الدین احمد نے فوری نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ افسران کو احکامات جاری کرتے ہوئے کہا کہ کراچی یونیورسٹی کے اندر ریزروائر 36 انچ ڈایا لائن کا مرمتی کام ہنگامی بنیادوں پر مکمل کیا جائے، اس ضمن میں واٹر بورڈ حکام نے لائن کی مرمت کا شروع کردیا، ترجمان واٹر بورڈ نے بتایا کہ لائن کا مرمتی کام اگلے 72 گھنٹوں میں مکمل کیا جائے گا، لائن کی مرمت کا کام چیف انجینئر ڈبلیو ٹی ایم منصور صدیقی کی نگرانی میں شروع کیا گیا ہے ، مرمتی کام کی وجہ سے اسکیم 33 ڈسٹرکٹ ایسٹ بی سیکٹر 12، 13، 15، 16، 17، 18، 19، 20، 21 اور بلاک 2 اور بلاک 3 میں پانی کی فراہمی معطل رہے گی اس لیے شہریوں سے التماس ہے کہ پانی احتیاط سے استعمال کریں اور پانی کا ذخیرہ کرلیں تاکہ انہیں کسی پریشانی کا سامنا کرنا نہ پڑے۔ امت نے مذکورہ معاملے پر چیف انجینئر منصور صدیقی سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ مذکورہ لائن 52 برس پرانی ہے اور اس میں اب تک 22 مقامات پر لیکج ظاہر ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہمیں لائن کو بند کرنا پڑا ، انہوں نے بتایا کہ کراچی میں مین ٹرنک لائنیں اپنی لائف 20 برس قبل ہی پوری کرچکی ہیں، حکومت نے سڑکیں تو بنائیں لیکن ان لائنوں کو تبدیل نہیں کیا جس کی وجہ سے مین ٹرنکس کی لائنیں اپنی میعاد پوری کرچکی ہیں ، انہوں نے بتایا کہ مذکورہ لائن صرف جامعہ کراچی کی حدود میں 3 کلومیٹر طویل ہے جس میں سے 10 سے 12 لیکجز ایم ایس کالر لگاکر بند کردیئے ہیں جبکہ بڑی لیکج کے لیئے لائنوں کو خالی کرکے اندر سے کنکریٹ مرمت کا کام شروع کیا گیا ہے ، انہوں نے کہا کہ مذکورہ لائن بہت پائیدار ہے جسے روکلا کمپنی آسٹریلیا نے تیار کیا تھا ، یہ پری اسٹریس انفورسمنٹ کنکریٹ پائپس (پی آر سی سی ) کہلاتے ہیں ، تمام اضلاع میں ڈسٹری بیوشن کیلئے انہی پائپس کا استعمال کیا گیا ہے ، تاہم اب ورلڈ بنک کی مدد سے ان لائنوں کی تبدیلی منصوبے میں شامل ہے تاکہ شہریوں کو پانی فراہم کیا جاسکے ، انہوں نے بتایا کہ مذکورہ پائپس 500 کلومیٹر کے رقبے پر نصب ہیں جن کی تبدیلی کے لیئے اربوں روپے درکار ہوں گے ، ورلڈ بنک کے منصوبے میں ہر سال 50 کلومیٹر لائن تبدیل کی جائے گی ، امکان ہے کہ ڈھائی تین برس میں یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ جامعہ کراچی کی مذکورہ لائن سے یومیہ 15 ایم جی ڈی پانی اسکیم 33 کے رہائشیوں کو فراہم کیا جاتا تھا جو تین روز تک نہیں دیا جاسکے گا ۔