احمد خلیل جازم :
سانحہ 9 مئی میں ملوث بلوائی جب سے قانون کی گرفت میں آئے ہیں، پی ٹی آئی کی قیادت اور خاص طور پر ان کی سوشل میڈیا ٹیم نے پنجاب کی جیلوں کے سسٹم سے متعلق ایک منظم پروپیگنڈہ شروع کررکھا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ پنجاب سمیت ملک بھر کی جیلوں میں قیدیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ رشوت عام ہے، بااثرقیدیوں کے لئے وی آئی پی انتظامات ہیں اور غریب قیدیوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ غرض یہ کہ جیلوں کا مجموعی نظام ٹھوس اصلاحات کا متقاضی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے اپنے پونے چار سالہ دور میں بھی جیلوں کی یہی حالت تھی، لیکن اسے کبھی یہ خامیاں دکھائی نہیں دیں اور نہ اس نے جیلوں کے سسٹم کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔ اب اس آگ کی تپش جب خود اسے محسوس ہو رہی ہے تو واویلا کیا جارہا ہے۔ بلکہ یہ واویلا، مبالغہ آرائی اور پروپیگنڈے کی شکل اختیار کرچکا ہے۔
اس پروپیگنڈے کے تحت خاص طور پر قیدیوں کو فراہم کی جانے والی خوراک پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ’’امت‘‘ نے حقائق تک پہنچنے کے لئے چھان بین کی تو معلوم ہوا کہ جیلوں کا وہی فرسودہ نظام ہے، جو پچھلے پچھتر برس سے چلا آرہا ہے۔ تاہم پی ٹی آئی نے اس میں جھوٹ کو شامل کردیا ہے، تاکہ موجودہ حکومت اور انتظامیہ پر دباؤ بڑھاکر اسے بدنام کیا جاسکے۔ پہلے پی ٹی آئی کے الزامات کا ذکر ہوجائے، جس میں اس کے ہمدرد صحافی اور یوٹیوبرز بھی پیش پیش ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’’جیلوں کی حالت نہایت ناگفتہ بہ ہے۔ وسائل اور بجٹ کی قلت کے سبب جو ہزاروں لوگ (بلوائی) جیلوں میں گئے ہیں تو حالات مزید بدتر ہوگئے ہیں۔ قیدیوں کو سالن کے نام پر نمک اور مرچیں گھول کر دی جارہی ہیں۔ اگر کسی قیدی کا رشتہ دار دوسرے قیدیوں کے لئے بھی گھر سے کھانا لائے تو صرف ایک ہی روٹی اندر لے جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ اب وہ ایک روٹی چاہے ایک بندہ کھائے یا بیس کھائیں۔ خواتین نے ٹوائلٹ کے آگے اپنی چادریں باندھی ہوئی ہیں تاکہ بے پردگی سے بچا جاسکے۔‘‘ قبل ازیں تحریک انصاف کے مفرور رہنما حماد اظہر نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’’تحریک انصاف کے قیدیوں سے پولیس دوران تفتیش دو لاکھ روپے کا تقاضہ کرتی ہے بصورت دیگر انہیں کہا جارہا ہے کہ ان پر پٹرول بم ڈال کر کیس بنا دیا جائے گا۔‘‘
ان الزامات کی تحقیق کے لئے جب متعلقہ حکام سے رابطہ کیا گیا تو پتا چلا کہ اس میں 90 فیصد سے زائد جھوٹ شامل ہے۔ آئی جی جیل خانہ جات پنجاب کے ذرائع نے بتایا کہ صوبے کی تمام جیلوں میں ایک سسٹم رائج ہے، جس کے تحت باقاعدہ کمیٹیاں کام کر رہی ہیں۔ ان کمیٹیوں کی ذمہ داریوں میں یہ بھی شامل ہے کہ ہر جیل میں تین وقت کھانے کی چیکنگ کرکے قیدیوں کو کھانا مہیا کیا جائے۔ جبکہ پنجاب کی اہم ترین اڈیالہ جیل راولپنڈی کے ذرائع کے بقول بیس قیدیوں پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی ہے، جسے ایک اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ سپروائز کرتا ہے۔ کمیٹی طے کرتی ہے کہ کس دن کون سی ڈش بنانی ہے اور کھانے کا معیار بھی چیک کیا جاتا ہے۔
پنجاب جیل خانہ جات کے ذرائع نے پی ٹی آئی کے پروپیگنڈے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’’ تحریک انصاف کے لیڈران جھوٹ پھیلانے میں ماہر ہیں اور ان کے کارکن سوشل میڈیا پر اس جھوٹ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ اس منظم پروپیگنڈے کے سبب عام آدمی سمجھتا ہے کہ واقعی ایسا ہی ہورہا ہے۔ حقائق یہ ہیں کہ پنجاب کی جیلیں علاقہ غیر میں نہیں۔ یہاں قیدیوں کے داد رسی کے لیے ججز وزٹ کرتے رہتے ہیں۔ سیشن جج کسی بھی ضلع کی جیل کا ذمہ دار ہوتا ہے، وہ ہفتے میں کے کسی روز بھی بغیر اطلاع کے چھاپہ مار کر حالات کا جائزہ لے سکتاہے۔
اس کے علاوہ پنجاب جیل پولیس نے کھانے اورمیس کا ایسا انتظام بنا رکھا ہے کہ اعتراض کی گنجائش کم نکلتی ہے ۔ جیلوں میں باقاعدہ مینو کے تحت کھانا دیا جاتاہے۔ اکثر جیلوں میں میس کا سارا انتظام قیدیوں کے پاس ہے۔ جیل میں ہر قیدی کو وزن کے حساب سے کھانا دیا جاتا ہے جو ایک قیدی کی ضرورت سے زیادہ ہوتاہے۔قیدیوں سے ملاقات کے لیے آنے والے ان کے عزیز و اقارب جو کچھ لاتے ہیں وہ سب متعلقہ قیدی تک پہنچا دیا جاتا ہے، سوائے پیسوں کے جو کہ جیل حکام کے پاس جمع ہوتے ہیں اور ضرورت پر انہیں فراہم کردیے جاتے ہیں۔
زیادہ تر قیدی اپنے اہل خانہ کو ٹیلی فون کالز کے لیے پیسے لیتے ہیں۔ ایک ہفتے میں دو سو روپے کے عوض قیدی چالیس منٹ تک اپنے عزیزوں سے بات کرسکتے ہیں۔‘‘ ان ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ خاص طور پر قیدی خواتین کے حوالے سے جو پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے وہ سو فیصد جھوٹ پر مبنی ہے۔ جیل سے رہا ہونے والے پی ٹی آئی کی کارکنان نے خود اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ان کے ساتھ جیلوں میں کوئی زیادتی نہیں ہوئی۔
اڈیالہ جیل کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ’’سنٹرل جیل اڈیالہ راولپنڈی میں سپرنٹنڈنٹ جیل کی ہدایت پر بننے والی بیس رکنی کمیٹی اپنی نگرانی میں کھا تیار کراکے قیدیوں میں تقسیم کرتی ہے۔ قیدیوں کے رشتے دار بھی نہ صرف گھروں سے کھانا لاتے ہیں بلکہ مختلف فلاحی ادارے بھی خوارک بھیجتے ہیں جو اسی کمیٹی کے ذریعے قیدیوں میں تقسیم ہوتی ہے۔ میس کا کھانا جیل کے اعلیٰ حکام تک چیکنگ کے دوران کھاتے ہیں تاکہ معیار میں ڈنڈی نہ ماری جاسکے۔ تقریباً ہر جیل میں ججز کی آمدورفت رہتی ہے۔ یہ جج صاحبان باقاعدگی سے قیدیوں کے مسائل سنتے ہیں۔ اور ان کی شکایت کا ازالہ کراتے ہیں۔
پنجاب پولیس ذرائع کا کہنا تھا کہ ’’تحریک انصاف کے لیڈر حماد اظہر یہ بات ثابت کریں کہ زیر تفتیش شر پسندوں سے پولیس پیسے وصول کررہی ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ پولیس میں کالی بھیڑیں نہیں ہیں، لیکن نومئی کے ملزمان کے ساتھ کسی قسم کا امتیازی سلوک نہیں کیا جارہا۔ ان کے خلاف تفتیش خالصتاً میرٹ پر ہورہی ہے۔ ویڈیوز، جیوفینسنگ اور فون کالز کی بنیاد پر ان کی گرفتاریاں ہوئی ہیں۔ جن میں کسی کو بھی پیسے لے کر چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ صرف پولیس ہی اس معاملے میں تفتیش نہیں کررہی بلکہ قانون نافذکرنے والے دیگر ادارے بھی معاونت کررہے ہیں۔ ایسے میں پولیس کسی سے پیسے نہ ملنے پر اسے پٹرول بم کے جھوٹے کیس میں کیسے گرفتار کرسکتی ہے؟ ‘‘