لُٹیرے نجی اسپتالوں کو بلیک لسٹ کیا جا رہا ہے، فائل فوٹو 
لُٹیرے نجی اسپتالوں کو بلیک لسٹ کیا جا رہا ہے، فائل فوٹو 

صحت کارڈ اسکینڈل میں ملوث اسپتالوں کے لیے شکنجہ تیار

نواز طاہر:
بے نظیر انکم اسپورٹ پروگرام کی طرح مستحق افراد کے علاج کیلیے شروع ہونے والی صحت کارڈ اسکیم بھی اب اشرافیہ کے ’’بھرپور استفادے‘‘ کے باعث متنازع اور جزوی طور پر معطل ہوگئی ہے اور پنجاب سمیت کئی علاقوں میں اس اسکیم کے تحت علاج کی سہولت فراہم نہیں کی جارہی۔ حالانکہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اربوں روپے کے اسکینڈل کے باوجود یہ اس اسکیم اور اس کے تحت مستحق افراد کا علاج جاری ہے۔ جبکہ اس میں مبینہ’’ لوٹ کھسوٹ ‘ والے اسپتالوں کیخلاف تحقیقات بھی شروع کردی گئی ہیں۔

واضح رہے کہ ہیلتھ کارڈ اسکیم کے تحت دس لاکھ روپے تک کے علاج کی سہولت فراہم کی گئی تھی اور اس کارڈ کے ذریعے منتخب اسپتالوں میں علاج جاری تھا، جس میں دل کے امراض اور زچگی بھی شامل تھی۔ لیکن کچھ روز قبل انکشاف ہوا کہ اسپتالوں نے زچگی اور کارڈیالوجی کے مریضوں کا علاج روک دیا ہے اور ہیلتھ کارڈ غیر موثر ہوگیا ہے۔ تاہم پنجاب کی نگران حکومت نے یہ علاج معطل ہونے کی نفی کرتے ہوئے ان اطلاعات کو غلط فہمی پھیلانے کی مہم قراردیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ علاج جاری ہے۔ اس کے ساتھ ہی حکومت نے اس سہولت میں بے ضابطگیوں کا خود انکشاف کیا اور بتایا کہ اس کارڈ کا ناجائز فائدہ اٹھایا گیا ہے اور اسپتالوں نے من مانے بل بنا کر اسٹیٹ لائف انشورنس کمپنی کو بھجوادیے تھے۔

یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ مستحق افراد کو سرکاری اور غیر سرکاری اسپتالوں میں مفت علاج ( علاج کے اخراجات کی ادائیگی حکومت نے کرنا تھی) کا منصوبہ نے نظیر انکم اسپورٹ پروگرام کا ہی حصہ تھا۔ لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا تھا اور سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے دورِ حکومت میں تین لاکھ روپے تک کے مفت علاج کے پروگرام کا آغاز کیا گیا تھا۔ جسے بعد میں پی ٹی آئی کی حکومت نے انصاف صحت کارڈ میں تبدیل کردیا تھا اور مستحق افراد کے ساتھ ساتھ اشرافیہ کو بھی یہ کارڈ جاری کردیے گئے تھے۔

پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہونے کے بعد جب اس کے بل سامنے آئے تو انکشاف ہوا کہ مستحقین سے زیادہ اشرافیہ نے استفادہ کیا اور نجی اسپتالوں نے بھی من مانی کی اور نیا مافیا پیدا ہوگیا، جس نے کمیشن پر غیر معیاری اور غیر ضروری علاج و آلات کے عوض سو، سو ارب کے بل بنادیے تو نگران حکومت نے اسے ریگولیٹ کرنے کا اصولی فیصلہ کیا۔ تاکہ موجودہ معاشی حالات میں رہتے ہوئے مستحق افراد کی یہ سہولت برقرار رکھی جائے اور صاحب حیثیت افراد انشورنس کمپنی کو چار ہزار تین سو پچاس روپے کے پریمئیم کی صورت میں حصہ ڈالیں۔ جبکہ اس سہولت کی فراہمی کا نیا طریقِ کار بھی وضع کیا جارہا ہے، جس کے تحت نجی اسپتالوں سے امراضِ قلب کا علاج کروانے والوں کو تیس فیصد اخراجات خود ادا کرنے ہوںگے۔ دوسری جانب امراض قلب کا علاج کرنے والے اسپتالوں میں بنیادی سہولتریں تیزی سے فراہم کی جارہی ہیں۔

لاہور کے مختلف اسپتالوں سے جب اس ضمن میں معلومات حاصل کی گئیں تو معلوم ہوا کہ حکومت کی نئی پالیسی و ہدایات کا انتظار کیا جارہا ہے۔ ان ذرائع کے مطابق تمام اسپتالوں نے من مانی نہیں، البتہ کچھ مخصوص عناصر کی بارے میں ایسی اطلاعات ضرور ہیں۔ البتہ سرکاری اسپتالوں میں علاج میں کوئی تعطل نہیں ہوا۔

محکمہ صحت کے نگران وزیر پروفیسر جاوید اکرم نے ’’’امت‘‘‘ کو بتایا کہ، نئے طریق کار کے تعین کیلئے میٹنگ ہوگئی ہے اور ابتدائی خاکہ تیار کرلیا گیا ہے۔ جسے جلد ہی حتمی شکل دے دی جائے گی۔ ہیلتھ کارڈ اسکیم میں مان مانی کرنے والے مافیا ، نجی اسپتالوں امراضِ قلب کے مریضوں کو اور غیر ضروری و غیر معیاری اسٹنٹ ڈالنے والوں کیخلاف تحقیقات اور کارروائی سے متعلق سوال پر انہوں نے بتایا کہ تحقیقات جاری ہیں۔ تاہم انہوں نے کسی بھی نجی اسپتال کا فی الحال نام بتانے سے گریز کیا اور بتایا کہ، تحقیقات کے بعد کوئی چیز مخفی نہیں رکھی جائے گی۔ تمام امور پبلک کیے جائیں گے اور قانونی کارروائی بھی عمل میں لائے گی۔

ایک اور سوال پر انہوں نے بتایا کہ ابتدائی طور پر کچھ اسپتال اور غیر معیاری اسٹنت فروخت کرنے والوں کیخلاف کارروائی کی گئی ہے اور انہیں بلیک لسٹ کرکے ان پر پابندی لگائی جارہی ہے، جن کی تفصیل جلد ہی عوام کے سامنے لائی جائے گی ۔ اس سوال پر کہ مستحقین کا علاج کب دوبارہ شروع ہوسکے گا؟ انہوں نے بتایا کہ علاج کی سہولت جاری ہے۔ امراضِ قلب کے حوالے سے مریضوں کو انجیو پلاسٹی اور بنیادی ٹیسٹ کی سہولت مفت فراہم کی جارہی ہے۔ جن اسپتالوں میں مشینوں کی مرمت زیر التوا ہے، اسے بھی ہنگامی بنیادوں پر مرمت اور فعال بنانے کا عمل جاری ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ غریب طبقے کے علاوہ کروڑ پتی افراد یا اشرافیہ کو یہ سہولت جاری رکھنے کیلئے جو چار ہزار تین سو پچاس روپے پریمئیم تجویز کیا گیا ہے، اس سے کتنی معاونت اور کلیکشن ہوسکے گی۔ اور اس کا طریقہ کار کیا ہوگا؟ تو انہوں نے کہا کہ، اس کلیکشن سے کتنی رقم جمع ہوسکے گی اس کے بارے میں تو حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ تاہم طریقِ کار بنایا جارہا ہے البتہ یہ پریمئیم حکومت نے نہیں وصول کرنا، بلکہ اس کی وصولی انشورنس کمپنی کرے گی۔

ذرائع کے مطابق آئندہ چند روز مین اس اسکینڈل میں ملوث کچھ معروف افراد کے نام سامنے آسکتے ہیں اور مقدمات کا اندراج بھی ہوگا۔