نواز طاہر/ نمائندہ امت :
’’عیدِ قربان بڑی عید ہے اور اس بڑی عید پر بڑی قربانی ہوگی‘‘ دیوانہ وار یہی بات دہراتے ہوئے اسنوکر چیمپیئن ماجد علی نے برقی آرا مشین (Chain Saw) چلائی اور اپنا گلا کاٹ ڈالا۔ اور یوں پاکستان ہی نہیں، پوری دنیا اسنوکر کے ایک ہونہار کھلاڑی سے محروم ہوگئی۔ واضح رہے کہ فیصل آباد کی نواحی بستی سمندری کے رہائشی ایشین چیمپیئن شپ کے رنر اپ اور ورلڈ چیمپئین شپ میں کانسی کا تمغہ حاصل کرنے والے 29 سالہ ماجد علی نے عین عید والے روز پڑوس میں واقع اپنی فرنیچر شاپ پر جا کر خود کو الیکٹرک آرا مشین سے ذبح کر ڈالا تھا۔
اس دل دہلا دینے والے واقعے سے متعلق پولیس کے تفتیشی ذرائع مختلف پہلوئوں سے چھان بین کر رہے ہیں۔ لیکن وہ اب تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پائے ہیں۔ دوسری جانب ماجد علی کے ایک قریبی دوست اور اسنوکر کے کھلاڑی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر حیرت انگیز انکشافات کیے ہیں۔
’’امت‘‘ کو بات کرتے ہوئے قریبی دوست کا کہنا تھا کہ ’’ماجد علی کی کامیابیوں سے جلنے والے مخالفین نے دو برس سے اسے کالے جادو کے نشانے پر رکھا ہوا تھا۔ ماجد علی دو ہزار تیرہ میں ایشیئن انڈر ٹونٹی ون چیمپیین شپ میں چاندی اور دو ہزار اٹھارہ میں عالمی سکسریڈ اسنوکر چیمئین شپ میں کانسی کا تمغہ جیتنے کے بعد عالمی چیمپئین بننے کی تیاری کر رہا تھا۔ وہ خود کشی کیوں کر سکتا ہے۔ یہ فعل اس نے اپنی مرضی سے نہیں، بلکہ مسلط کیے گئے شیطانی اثرات کے تحت کیا‘‘۔
ادھر ماجد علی کے بھائی راشد علی نے اس واقعے کو خودکشی تسلیم کرتے ہوئے پولیس اور عوام کو بتایا ہے کہ ان کا بھائی دو برس سے ڈپریشن کا شکار تھا۔ جس نے فرنیچر ورکشاپ میں آرا مشین سے اپنا گلا کاٹ ڈالا۔ مقامی پولیس نے بھی ضابطہ فوجداری کی رسمی کارروائی مکمل کی اور اس کے بعد کھلاڑیوں، مداحوں اور مقامی لوگوں نے آہوں اور سسکیوں کے ساتھ ماجد علی کو مقامی قبرستان میں سپردِ خاک کر دیا۔
سمندری کی ضیا مارکیٹ ابھی تک سوگوار ہے اور لاہور کا وہ اسنوکر کلب بھی سوگوار ہے۔ جہاں ماجد علی اکثر اسنوکر کھیلا اور گیم کی پریکٹس کیا کرتا تھا اور نئے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی بھی کرتا تھا۔ اس حوالے سے اسنوکر کنگ میکر کہلائے جانے والے مقامی کھلاڑی ایم بی غوری نے ماجد علی کے بارے میں اس کے اہلِ خانہ، دوستوں اور مقامی لوگوں کی تائید کرتے ہوئے بتایا کہ، وہ ہنس مکھ اور خوش اخلاق کھلاڑی ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ کردار کا مالک تھا۔ ماجد علی کی خود کشی کے محرکات پر بات کرتے ہوئے ایم بی غوری آبدیدہ ہوگئے اور بتایا کہ ’’اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس کی خودکشی کے محرکات میں مالی پریشانی یا گھریلو ناچاقی شامل تھی تو ایسا ہرگز نہیں۔ وہ مالی و معاشی طور پر خوشحال گھرانہ ہے۔
اس کے موت کے اسباب میں عشق کی ناکامی جیسی کوئی داستان بھی نہیں۔ شاید اس کو کسی حاسد کی نظر لگ گئی تھی۔ وہ گزشتہ دو ڈھائی برس سے عجیب کیفیت کا شکار تھا۔ وہ اکثر تنہا بیٹھا خود کلامی کرتا تھا۔ اس کا نفسیاتی علاج بھی جاری تھا اور گھر والے روحانی علاج بھی کروارہے تھے۔ لیکن کوئی افاقہ نہیں ہو رہا تھا۔ ماجد کے بھائی نے عید سے کچھ عرصہ قبل جب اس کی تشویش ناک صورت حال سے آگاہ کیا تو ہمیں بھی تشویش ہوئی اور ہم کچھ دوستوں نے طے کیا کہ اس سے مل کر حالات جاننے، سنبھالنے اور علاج کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔
عید سے پہلے میری جب اس بات ہوئی تو وہ نارمل تھا۔ ہم نے عید کے فوری ملنے کا پروگرام بھی طے کرلیا۔ عید کے روز ملاقات تو ہوئی۔ مگر ہمیشہ کیلئے چپ ہوجانے والے سے۔ میں نے اور اسنوکر کے دیگر کھلاڑیوں نے اس کے جنازے کو کندھا دیا‘‘۔
ایم بی غوری نے بتایا کہ ’’اس واقعے سے پہلے وہ اپنے بھائیوں اور قریبی ملنے والوں سے تواتر کے ساتھ یہ کہتا رہا تھا کہ اس بار بڑی عید پر بڑی قربانی ہونے والی ہے۔ عید کے روز وہ اپنی فرنیچر کی ورکشاپ میں گیا اور آرا شین چلا دی۔ جب ایک بھائی نے پوچھا کہ ایسا کیوں کر رہے ہو تو اس نے کہا کچھ نہیں۔ بس میں دیکھا رہا ہوں کہ یہ چلتی بھی ہے یا نہیں؟ اس کے بعد بھائی اسے ایک کمرے میں لے گئے اور قربانی میں مصروف ہوگئے اور پھر شام سوا چھ بجے کے قریب اس نے دوبارہ آرا مشین چلائی اور اپنی گردن آری کے سامنے کر دی۔ چار انچ تک آری نے گردن اور شہ رگ کاٹی اور ماجد علی تڑپتا ہوا گر گیا۔ جس کے ساتھ ہی اس کی روح پرواز کرگئی‘‘۔
سمندری روڈ پر ایک فیول اسٹیشن پر کام کرنے والے اسنوکر کے کھلاڑی واحد نے بتایا کہ ’’مجھے ماجد بھائی اکثر کہا کرتے تھے کہ اپنی اسٹک سیدھی رکھو۔ کام اور کھیل میں مکمل دھیان اور دیانت داری چاہیے۔ میں تمہیں بڑا کھلاڑی بنتے دیکھنا چاہتا ہوں۔ اب میں عید کے بعد سے ایک روز بھی اسنوکر کی اسٹک کو ہاتھ نہیں لگا سکا ہوں‘‘۔
واقعے کے حوالے سے پولیس کے تفتیشی ذرائع بھی چکرائے ہوئے ہیں۔ تحقیقات میں شامل ایک ذریعہ کا کہنا تھا کہ ’’بظاہر کوئی وجہ نہ ہونے کے باوجود، اس انداز میں خود کو موت کے گھاٹ اتارنا، سمجھ سے بالاتر ہے۔ کیونکہ خود کشی کرنے والے عموماً پھندا لگانے، سر میں گولی مارنے یا خواب آور گولیاں کھا کر جان دینے کے طریقے استعمال کرتے ہیں۔ نہر میں کودنا یا ٹرین کے آگے لیٹ جانے کے واقعات بھی عام ہیں۔ لیکن آرا مشین کے ذریعے اپنی گردن کاٹ دینے کی مثال کبھی سامنے نہیں آئی۔ یہاں یہ معاملہ پراسرار رنگ اختیار کر رہا ہے۔ بہرحال مختلف پہلوئوں پر تفتیش جاری ہے‘‘۔