امت رپورٹ :
اس وقت ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کے خلاف وعدہ معاف گواہ کون بنے گا؟ خاص طور پر نیب کے نئے ترمیمی آرڈیننس کے بعد یہ سوال بہت سے ذہنوں میں پیدا ہوا ہے اور اس پر ولاگ بھی کیے گئے ہیں۔ کیونکہ نئے صدارتی آرڈیننس سے چیئرمین کو ملنے والے مزید اختیارات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ مقدمے میں سے کسی فرد کو وعدہ معاف گواہ بنا سکتے ہیں۔
القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے علاوہ فرح گوگی، ملک ریاض، شہزاد اکبر، زلفی بخاری، بابراعوان اور ڈاکٹر عارف بٹ سمیت دیگر شامل ہیں۔ واضح رہے کہ یہ کیس انکوائری سے نکل کراب انوسٹی گیشن میں تبدیل ہو چکا ہے اور اگر تحقیقات کے دوران آگے چل کر مزید لوگوں کے اس کیس میں ملوث ہونے کے ثبوت نہیں ملتے تو پھر متذکرہ افراد میں سے ہی ممکنہ طور پر کوئی ایک یا ایک سے زیادہ وعدہ معاف گواہ سامنے آسکتے ہیں۔ کیونکہ صدارتی آرڈیننس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ چیئرمین نیب کو مقدمے میں سے کسی فرد کو وعدہ معاف گواہ بنانے کا اختیار ملا ہے۔
اس کیس میں ملوث قرار دیئے گئے دیگر افراد میں سے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کا دبئی آنا جانا لگا رہتا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وہ اس وقت دبئی میں ہیں۔ دسمبر دو ہزار انیس میں ملک ریاض نے اپنی ’’ڈرٹی منی‘‘ یا مشکوک رقوم سے متعلق تحقیقات میں ایک سو نوے ملین پائونڈ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے حوالے کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ تاکہ وہ منی لانڈرنگ طرز کی تحقیقات سے جان چھڑا سکیں۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس کیس میں نیب راولپنڈی کو وہ اپنا ابتدائی بیان ریکارڈ کراچکے ہیں۔ جبکہ شہزاد اکبر، عمران خان کی اقتدار سے بے دخلی کے ایک ہفتے بعد ہی ملک سے فرار ہوگئے تھے اور اس وقت لندن میں ہیں۔ اگرچہ شہزاد اکبر کا نام ایف آئی اے کی ’’اسٹاپ لسٹ‘‘ میں شامل تھا۔ تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ کی مہربانی سے لسٹ سے ان کا نام نکالا گیا۔ وہ منہ اندھیرے اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے پہلے دبئی اور پھر وہاں سے برطانیہ چلے گئے تھے۔ نیب ذرائع کے مطابق بند لفافے میں ایک سو نوے ملین پائونڈ کی ڈیل کی منظوری کے لئے انہوں نے وفاقی کابینہ سے اہم معلومات چھپائی تھیں۔
برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کی جانب سے آنے والے ایک سو نوے ملین پائونڈ کی یہ رقم قومی خزانے میں جمع کرانے کے بجائے بحریہ ٹائون کے واجبات کی مد میں سپریم کورٹ کے اکائونٹ میں ڈال دی گئی تھی۔ اس کے بدلے میں ملک ریاض نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو القادر یونیورسٹی کے لئے ضلع جہلم کی تحصیل سوہاوا میں چار سو اٹھاون کنال سے زائد اراضی فراہم کی تھی۔ اب تک نیب راولپنڈی شہزاد اکبر کو پوچھ گچھ کے لئے دوبار طلب کر چکا ہے۔ لیکن وہ برطانیہ کی ٹھنڈی فضائوں میں بیٹھے ہیں۔
اسی طرح عمران خان کے قریبی ساتھی زلفی بخاری بھی قریباً ڈیڑھ ماہ پہلے لندن فرار ہو چکے ہیں۔ اگرچہ زلفی بخاری کا نام بھی اسٹاپ لسٹ میں تھا۔ لیکن انہوں نے لسٹ سے اپنا نام نکلوانے کے لئے عدالت سے رجوع کرنے کی بھی زحمت نہیں کی اور ایک پڑوسی ملک کے راستے لندن فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ فرار ہونے سے قبل نیب انہیں طلب کر کے تین گھنٹے تک پوچھ گچھ کر چکا تھا۔ تاہم مزید تحقیقات سے پہلے وہ چمپت ہوگئے۔
زلفی بخاری القادر ٹرسٹ کے ابتدائی بورڈ ارکان میں شامل اور اراضی کی منتقلی کے معاملے میں ملوث تھے۔ لہٰذا نیب راولپنڈی نے انہیں القادر یونیورسٹی پروجیکٹ ٹرسٹ اراضی کی منتقلی کے ریکارڈ کے ساتھ طلب کیا تھا۔ زلفی بخاری کا دعویٰ تھا کہ نیب نے انہیں بطور گواہ بلایا تھا۔ القادر ٹرسٹ کیس کی ایک اور کردار فرح گوگی عمران خان کی معزولی کے بیس روز بعد ملک سے فرار ہوگئی تھی۔ فرح گوگی پاکستان سے فرار ہوکر پہلے دبئی پہنچی تھی۔ اس دوران حکومت کی جانب سے یہ دعوے کئے جاتے رہے کہ فرح گوگی کو واپس لانے کے لئے انٹرپول سے رابطہ کیا جارہا ہے۔ تاہم اس سے پہلے ہی یہ اطلاعات آگئیں کہ وہ دبئی سے یورپ کے ایک ملک چلی گئی ہے۔
ذرائع کے بقول فرح گوگی کو بتایا گیا تھا کہ دبئی سے کسی مطلوب فرد کو پاکستان لانا آسان ہے۔ کیونکہ دونوں ممالک کے حکام کے مابین اس حوالے سے پورا تعاون کیا جاتا ہے۔ چنانچہ فرح گوگی نے محفوظ پناہ گاہ کے لئے یورپ کا رخ کرلیا۔ القادر ٹرسٹ کیس میں بابر اعوان ایڈووکیٹ کو بھی ملوث قرار دیا گیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے بابر اعوان بھی پاکستان چھوڑ گئے تھے۔ اس کے بعد ان کی واپسی کے حوالے سے کوئی اطلاع نہیں۔ البتہ انہوں نے اپنے یوٹیوب چینل پر بے سروپا ولاگ کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
بابر اعوان نے عمران خان، بشریٰ بی بی اور زلفی بخاری کے ساتھ مل کر القادر پروجیکٹ ٹرسٹ بنایا تھا۔ اس ٹرسٹ کے بورڈ ارکان میں ابتدائی طور پرجو چار ارکان شامل تھے۔ ان میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کے ساتھ زلفی بخاری اور بابر اعوان بھی تھے۔ بعد ازاں اس میں سے زلفی بخاری اور بابر اعوان کو نکال دیا گیا۔ ان کی جگہ فرح گوگی اور ڈاکٹر عارف بٹ کو لے لیا گیا تھا۔ عارف بٹ لمز یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔
یوں عمران خان اور بشریٰ بی بی کے علاوہ القادر ٹرسٹ کیس میں ملوث قرار دیئے گئے بیشتر افراد اس وقت بیرون ملک ہیں۔ اس معاملے سے جڑے ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ القادر ٹرسٹ کے ٹرسٹی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف اس قدر ٹھوس دستاویزی شواہد موجود ہیں کہ ان کا بچنا مشکل ہے۔ تاہم اگر ان کے خلاف ایک یا ایک سے زائد وعدہ معاف گواہ مل جاتے ہیں تو پھر دونوں میاں بیوی کی بچت کا موہوم سا امکان بھی ختم ہو جائے گا۔
ذرائع کے بقول یہ خارج از امکان نہیں کہ القادر ٹرسٹ کیس میں جن دیگر افراد کو ملوث قرار دیا گیا ہے۔ ان میں سے ملک ریاض اور شہزاد اکبر وعدہ معاف گواہ بن جائیں۔ خاص طور پر شہزاد اکبر کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ واپس پاکستان آکر وعدہ معاف گواہ بن سکتے ہیں۔ ذرائع کے بقول جس طرح ہلکی سی گرم ہوا لگنے پر عمران خان کے قریب ترین لوگ ان کا ساتھ چھوڑگئے۔ ایسے میں القادر ٹرسٹ جیسے مضبوط کیس میں سزا سے بچنے کے لئے ایک سے زیادہ افراد کا وعدہ معاف گواہ بننا حیران کن نہیں ہوگا۔ قانونی ماہرین کے مطابق اس طرح کے کیسز میں جرم ثابت ہونے پر سات سے چودہ برس تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ لہٰذا کون چاہے گا کہ ’’خبطی انقلابی‘‘ کی خاطر اپنی زندگی کے بہترین دن جیل میں گزارے۔