علی جبران :
توشہ خانہ کیس کا بھوت عمران خان کے اعصاب پر سوار ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ خود ساختہ بوڑھے انقلابی کے وکلا وہ سارے اسٹیپ ابھی سے اٹھانا شروع ہوگئے ہیں۔ جو عموماً کسی بھی کیس میں فیصلہ آجانے کے بعد اٹھائے جاتے ہیں۔ اس پر الیکشن کمیشن پاکستان کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلا اس کیس کو خود خراب کر رہے ہیں۔ اس کے منفی نتائج انہیں بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔ اس کی تفصیل آگے چل کر بیان کرتے ہیں۔ پہلے یہ بتاتے چلیں کہ عمران خان آخر توشہ خانہ کیس سے اس قدر خوفزدہ کیوں ہیں؟
اس کیس کے پس پردہ عوامل سے آگاہ ذرائع کے بقول توشہ خانہ کیس کا بھوت عمران خان پر سوار ہونے کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ اس کیس میں ان کے خلاف ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔ چنانچہ انہیں اندازہ ہے کہ ایڈیشنل سیشن کورٹ میں جاری فوجداری کارروائی میں سزا کے ساتھ ان کی نااہلی یقینی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس ممکنہ سزا اور نااہلی سے بچنے کے لئے تاخیری حربوں سمیت ہر ہتھکنڈا استعمال کر رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن پاکستان نے توشہ خانہ ریفرنس میں عمران خان کو نااہل کرنے کے بعد فوجداری کارروائی کا ریفرنس گزشتہ برس اکتوبر میں ایڈیشنل سیشن کورٹ اسلام آباد کو بھیجا تھا۔ عموماً اس نوعیت کے کیسز کا فیصلہ دو تین ماہ میں ہوجاتا ہے۔ تاہم کم و بیش نو ماہ گزر جانے کے باوجود یہ کیس لٹکا ہوا ہے۔ پی ٹی آئی کے تاخیری حربوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سات ماہ بعد جاکر توشہ خانہ کیس میں عمران خان کے خلاف فرد جرم عائد ہو سکی۔ اس سے قبل عمران خان نے ایڈیشنل سیشن کورٹ میں پیش نہ ہونے کا حربہ اختیار کئے رکھا۔ تاکہ فرد جرم سے بچا جا سکے۔ حتیٰ کہ ایک موڑ ایسا بھی آیا جب رواں برس اپریل میں توشہ خانہ فوجداری کیس کو سننے والے ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال کا تبادلہ کر دیا گیا۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع تصدیق کرتے ہیں کہ جج ظفر اقبال پر اس کیس کو لے کر بہت زیادہ دبائو تھا۔ یوں اس تبادلے سے عمران خان پر یقینی فرد جرم کا معاملہ ایک بار پھر کھٹائی میں پڑگیا۔
جج ظفر اقبال کی جگہ ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور تعینات ہوئے۔ جو ایک دبنگ جج کے طور پر شہرت رکھتے ہیں اور ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کسی قسم کا دبائو خاطر میں نہیں لاتے، اور یہ کہ کسی بھی کیس کا فیصلہ قانون کے مطابق میرٹ پر کرتے ہیں۔ آخر کار رواں برس دس مئی کو توشہ خانہ کیس میں عمران خان پر فرد جرم عائد کر دی گئی۔
قانونی ماہرین کے بقول فرد جرم عائد ہونے کے بعد اس کیس کا فیصلہ ڈیڑھ دو ماہ میں متوقع تھا۔ تاہم پی ٹی آئی نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کر دی۔ جس میں استدعا کی گئی تھی کہ عمران خان کے خلاف ایڈیشنل سیشن کورٹ میں جاری فوجداری کارروائی کو ناقابل سماعت قرار دیا جائے۔ یوں فرد جرم عائد ہونے کے دو دن بعد ہی بارہ مئی کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے ماتحت عدالت میں جاری فوجداری کارروائی کے خلاف حکم امتناہی جاری کر دیا۔
بعد ازاں تین روز پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کی جانب سے دائر کردہ درخواست پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے یہ معاملہ ٹرائل کورٹ (ایڈیشنل سیشن عدالت) میں دوبارہ بھیج دیا اور حکم دیا کہ وہ کیس کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ دوبارہ دیکھے اور اس سلسلے میں سات روز کے اندر نئے سرے سے فیصلہ کیا جائے۔ اب ایڈیشنل سیشن کورٹ نے کیس کے ناقابل سماعت ہونے سے متعلق عمران خان کی درخواست کا جائزہ لے کر دس جولائی تک دوبارہ فیصلہ سنانا ہے۔
ذرائع کے بقول پی ٹی آئی کو اندازہ ہے کہ فیصلہ اس کے خلاف آنا ہے۔ لہٰذا اپنے تاخیری حربوں کا سلسلہ دراز کرتے ہوئے عمران خان کے وکلا نے گزشتہ روز سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ میں موجود اس کے ہمدرد ججز پر مشتمل بنچ بن گیا تو ایک بار پھر اس کیس میں وہ حکم امتناع حاصل کر سکتی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ پی ٹی آئی کی یہ توقع کس حد تک پوری ہوتی ہے۔ ادھر اس کیس میں ایڈیشنل سیشن کورٹ نے آج (جمعہ کو) عمران خان کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا ہے۔
اس سارے معاملے پر الیکشن کمیشن پاکستان کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ توشہ خانہ فوجداری ریفرنس کا فیصلہ آنے سے قبل عمران خان کے وکلا ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ سے رجوع کرکے خود ہی یہ کیس خراب کر رہے ہیں۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کنور دلشاد کا کہنا تھا ’’توشہ خانہ فوجداری ریفرنس میں ایڈیشنل سیشن کورٹ کا فیصلہ اگر عمران خان کے خلاف آجاتا ہے تو ان کے پاس ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا حق ہوگا۔ تاہم چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلا نے فیصلہ آنے سے پہلے ہی یہ سارے فورم استعمال کرنے شروع کر دیئے ہیں۔
اگر سپریم کورٹ بھی ہائیکورٹ کی طرح کیس کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ ٹرائل کورٹ کو دوبارہ بھجوادیتا ہے تو چیئرمین پی ٹی آئی کے پاس اپنے دفاع کے آپشنز محدود ہوجائیں گے۔ کیونکہ فیصلہ خلاف آنے کی صورت میں جب وہ دوبارہ ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں اپنا اپیل کا حق استعمال کریں گے تو ممکنہ طور پر عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کی طرف سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ پہلے ہی اس معاملے پر دونوں عدالتوں سے رجوع کر چکے ہیں۔ اب کیا لینے آئے ہیں؟ کہنے کا مقصد ہے کہ فیصلے سے قبل ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کر کے عمران خان کے وکلا نے اپنے حق اپیل کو کمزور بنادیا ہے‘‘۔
ایک اور سوال پر کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ ’’اس کیس میں جرم ثابت ہونے پر عمران خان کو تین سال تک قید یا پچاس ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ سزا ہونے پر اگرچہ ضمانت آسانی سے ہوجائے گی۔ لیکن خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس صورت میں بھی چیئرمین پی ٹی آئی پانچ برس کے لئے نااہل ہوجائیں گے۔ یعنی جرم ثابت ہونے پر عمران خان کو سزا چاہے تین برس قید کی ہو یا محض پچاس ہزار روپے جرمانہ کردیا جائے۔ دونوں صورتوں میں وہ سزا یافتہ ہوجائیں گے۔ لہٰذا پانچ برس تک کوئی پبلک آفس ہولڈ نہیں کر سکیں گے‘‘۔