افغانستان (اُمت نیوز)افغانستان میں برطانیہ کے اعلیٰ سفارت کار نے دارالحکومت کابل میں طالبان حکام سے ملاقات کی اور خواتین اور لڑکیوں کے حقوق سمیت مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا۔
افغانستان میں برطانوی مشن کے ناظم الامور رابرٹ سی ڈکسن نے جمعرات کو بتایا کہ انہوں نے افغانستان کے دارالحکومت کا دورہ کیا اور قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی اور دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقات کی۔
ڈکسن نے جمعرات کو ٹویٹس کی ایک سیریز میں لکھا، ’میں نے طالبان قیادت کے ساتھ وسیع پیمانے پر بات چیت کی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے انسداد منشیات، سیکیورٹی بہتر بنانے اور کرپشن کم کرنے پر کام کیا ہے۔ میں نے خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کو پامال کرنے والے احکامات کے بارے میں اپنی گہری تشویش کو واضح کیا‘۔
گزشتہ ماہ افغانستان میں برطانوی مشن کے چارج ڈی افیئرز کے طور پر تعینات ہونے کے بعد یہ ان کا کابل کا پہلا دورہ تھا۔
برطانوی سفارت کار نے کہا کہ انہوں نے طالبان قیادت کو یقین دلایا کہ ان کا ملک خواتین اور لڑکیوں سمیت تمام افغانوں کے مثبت مستقبل کی حمایت کرے گا۔
کابل کے اپنے دورے کو ”آگے کے راستے کی تلاش“ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک کا سامنا کر رہا ہے، جو نصف صدی کے تنازعات اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے خراب خشک سالی سے گزر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’28 ملین سے زیادہ افغانوں کو انسانی امداد کی ضرورت ہے اور معاشی صورتحال ابتر ہے۔‘
ڈکسن نے کہا کہ وہ افغان خواتین اور لڑکیوں پر دباؤ ڈالتے رہیں گے کہ وہ اپنی پوری صلاحیت حاصل کریں، اور ایک محفوظ اور خوشحال افغانستان بنانے میں مدد کے لیے طالبان سمیت ہر کسی کے ساتھ مل کر کام کریں۔
برطانیہ کی افغانستان میں کوئی سفارتی موجودگی نہیں ہے اور اس کا سفارت خانہ قطر کے دارالحکومت دوحہ سے کام کرتا ہے۔
دریں اثنا، جاپانی سفیر تاکاشی اوکاڈا نے بھی متقی سے ملاقات کی اور افغانستان میں مجموعی سیکورٹی کی تعریف کی۔
وزارت خارجہ کے نائب ترجمان حافظ ضیاء احمد نے جاپانی سفیر کے حوالے سے بتایا کہ ’جاپان افغانستان کے ساتھ منشیات، تعلیم، موسمیاتی تبدیلی، پانی کے انتظام، ورثے کے مقامات، صحت اور دیگر شعبوں میں مصروفیات اور تعاون کو وسیع کرنے پر غور کر رہا ہے۔‘
اس کے جواب میں متقی نے کہا کہ دنیا کو سلامتی، منشیات پر پابندی، تعلیم، عادی افراد کی بحالی، صحت کی خدمات اور دیگر شعبوں میں ان کی کامیابیوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔