ہیٹ ویو نے مزید سیکڑوں امریکی اسپتال پہنچا دیے

نیویارک(امت نیوز)امریکہ میں ہیٹ ویو کی شدید لہر سے مزید سیکڑوں شہریوں کی حالت غیر ہوگئی، جس کے باعث انہیں اسپتال منتقل کردیا گیا۔ ڈاکٹروں نے شہریوں کے علاج کیلئے آئس بیگز کا استعمال کررہے ہیں۔ امریکہ کے جنوبی علاقے اس وقت شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں۔ درجہ حرارت بڑھنے کے سبب ملک میں ایئرکنڈیشنر اور دیگر الیکٹرانکس اشیا کی مانگ بڑھ گئی ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ نے دنیا بھر کے ممالک میں شدید گرم موسم کا انتباہ جاری کیا ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکہ کے جنوبی علاقوں کو سورج کی تپش نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس وجہ سے بڑھتے درجہ حرارت سے شہریوں کی حالت غیر ہورہی ہے۔ہیٹ ویو سے لوگوں کی بڑی تعداد اسپتال میں زیر علاج ہے جہاں ڈاکٹرز شہریوں کے علاج کے لیے آئس بیگز کا استعمال کررہے ہیں۔بیشتر مریض سر درد، بلڈ پریشر میں کمی، چکر آنے سمیت بے ہوشی کی حالت میں اسپتال لائے جارہے ہیں۔گرمی سے متاثرہ علاقوں میں مسلسل 19 دنوں سے درجہ حرارت 43 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا جارہا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق گرمی کی شدید لہر نےفلوریڈا اور کیلیفورنیا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔دوسری جانب گرمی سے بچنے کے لیے الیکٹرانکس آئٹمز کی مانگ میں اضافہ ہورہا ہے اور عوام کی بڑی تعداد ائیر کنڈیشنر استعمال کررہی ہے جس سے بجلی کے استعمال میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ نے امریکہ میں شدید گرمی کی لہر کے بعد خبردار کیا ہے کہ دنیا گرمی کی شدت میں اضافے کا سامنا کرنے کی تیاری کرلے۔اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ دنیا کو ابھی گرمی کی شدت میں غیر متوقع اور بڑے اضافے کا سامنا کرنا ہوگا، جس کی پیشگی تیاری نہیں کی گئی تو نقصان زیادہ ہونے کا خدشہ ہے،گرمی کی شدت میں بے پناہ اضافے کی وجہ موسمیاتی تغیرات ہیں،ماحولیات پر مل جل کر اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کام کرنے کی ضرورت ہے۔اقوام متحدہ نے عالمی اداروں سے درختوں کی کٹائی، آبی گذرگاہوں پر عمارات کی تعمیر اور ایسے کسی بھی اقدام کی حوصلہ شکنی کا مطالبہ کیا جس کے ماحولیات پر منفی اثرات پڑتے ہوں۔خیال رہے کہ رواں برس امریکا میں گرمی کا 50 سالہ ریکارڈ ٹوٹ چکا ہے جب کہ چین میں درجہ حرارت 52 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا۔ اٹلی میں 44 درجہ حرارت ہوگیا۔موسمیاتی تبدیلیوں کا شاخسانہ ہی ہے کہ کینیڈا کے جنگلات میں 500 سے زائد مقامات پر آگ بھڑک اُٹھی ہے اور یہی صورت حال اسپین، یونان اور سوئٹزرلینڈ کے جنگلات میں بھی ہے۔