عمران خان :
پی ٹی اے (پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی) میں کروڑوں روپے مالیت کے ہزاروں موبائل فونز ڈیوٹی ادائیگی کے بغیر رجسٹرڈ کرائے جانے کی تحقیقات مزید آگے بڑھانے سے روک دی گئی ہے۔ کیونکہ اسلام آباد ایئرپورٹ پر تعینات اسکینڈل میں ملوث 6 افسران کیخلاف ابتدائی انکوائری میں محکمہ کسٹمز کے بعض اعلیٰ افسران بھی شامل تفتیش ہونے کا امکان تھا۔
مہنگے موبائلز کی درجنوں کھیپیں بغیر ڈیوٹی اور ٹیکس کے کلیئر کرانے میں سہولت کاری فراہم کرنے والے کسٹمز افسران اور ملوث درآمدی کمپنیوں کے خلاف تحقیقات مکمل کرکے اصل اعداد و شمار سامنے لانے اور ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دینے کیلئے پی ٹی اے کی درخواست پر بھی معاملات آگے نہ بڑھ سکے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق اسلام آباد ایئرپورٹ پر تعینات کسٹمز کے6 افسران کے حوالے سے اسکینڈل اس وقت سامنے آیا۔ جب انکشاف ہوا کہ اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے کارگو سیکشن میں کروڑوں مالیت کے موبائل فونز بغیر ٹیکس ادا کیے کلیئر کرائے جا رہے تھے۔ معاملہ ایک تیسرے شعبے کی خفیہ اطلاع پر سامنے آنے کے بعد کسٹمز اسلام آباد کے چیف کلکٹریٹ نارتھ آفس کے ہی متعلقہ شعبہ کے افسران کو اطلاع دی گئی۔
ذرائع کے مطابق کسٹمز انٹیلی جنس کی جانب سے پی ٹی اے ذرائع سے ملنے والی خفیہ اطلاع پر کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہی گیا تھا کہ چیف کلکٹوریٹ نارتھ آفس کے حکام نے خود کو سبکی سے بچانے کیلئے کسٹمز انٹیلی جنس افسران کو کارروائی اور مقدمہ درج کرنے سے گریز کرنے کیلئے کہا اورایف بی آر ہیڈ کوارٹرز کے افسران سے درخواست کی کہ انہیں از خود کارروائی کی اجازت دی جائے۔ جس میں ایئر پورٹ کے متعلقہ افسران کے حکام ملوث افسران اور ملوث موبائل تاجروں کے خلاف مقدمہ درج کرکے مکمل تحقیقات کریں گے۔ اس پر ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز سے انہیں اجازت مل گئی۔
بعد ازاں چیف کلکٹوریٹ کسٹمز نارتھ کی جانب سے اسلام آباد ایئرپورٹ پر تعینات کارگو کے اپریزمنٹ اسٹاف اور کمپنیوں کے خلاف باقاعدہ مقدمہ درج کیا گیا۔ جس میں ابتدائی طور پر 6 افسران راجہ حامد، فراز الحسن، پرنسپل اپریزر ضیاء الحسن، اپریزر عفان یونس اور اپریزنگ افسران صائمہ اور فائزہ کے ساتھ، دو کمپنیوں میسرز الحمد انٹر پرائزز کراچی اور میسرز چائنا موبائل پرائیویٹ لمیٹڈ کے مالکان اور کلیئرنگ ایجنٹوں کو نامزد کیا گیا۔
مقدمہ کے مطابق مذکورہ کسٹمز افسران نے دونوں کمپنیوں کیلئے درآمد ہونے والے 5 ہزار سے زائد قیمتی آئی فونز پر مشتمل کھیپوں کو کلیئر کرنے میں جعلسازی اور کرپشن کی۔ یہ افسران الحمد انٹر پرائزز اور میسرز چائنا موبائل کمپنی کے ساتھ ملی بھگت کرکے بیرون ملک سے قیمتی موبائل پاکستان بھجواتے تھے۔ جنہیں کچھ وقت کیلئے اسلام آباد ایئرپورٹ کے کارگو سیکشن میں رکھ کر رشوت لے کر بغیر ڈیوٹی ادا کیے کلیئر کر دیا جاتا تھا۔ اس طرح قومی خزانے کو بھی کروڑوں روپے کا چونا لگا یا گیا۔
ذرائع کے بقول اس اسکینڈل کی تحقیقات میں شروع ہی سے ڈنڈی ماری گئی۔ کیونکہ ابتدا میں جن معلومات پر کارروائی کی گئی۔ اس کے مطابق مجموعی طور پر 9 ہزار 300 کے قریب قیمتی موبائل ایسے تھے۔ جن کی درآمد کے بعد ان کی کلیئرنس کیلئے جمع کرائی گئی گڈز ڈکلریشن کی دستاویزات میں رد و بدل کیا گیا اور دستاویزات سے ای ایم ای آئی نمبرز مٹا کر انہیں سامان میں شامل کرکے نکلوادیا گیا اور یوں ان کے ڈیوٹی و ٹیکس وصول ہی نہیں کئے گئے۔ تاہم اس سے قبل درآمد کنندہ کمپنیوں کے مالکان اپنے کلیئرنگ ایجنٹوں کے ذریعے ان موبائلز کی ای ایم ای آئی نمبرز کی فہرست پی ٹی اے میں جمع کراچکے تھے اور ایف بی آر ڈیوٹی کسٹمز میں ادا کرکے ان کی پاکستان میں رجسٹریشن حاصل کرنی تھی۔
یوں ایک جانب پی ٹی اے میں ان موبائلوں کے نمبرز کی لسٹیں جمع کراکر انہیں پاکستان میں رجسٹرڈ کروالیا گیا۔ تاہم دوسری طرف ان پر لگنے والی ڈیوٹی کسٹمز افسران کی ملی بھگت سے قومی خزانے میں جمع ہی نہیں کرائی گئی۔ اس اسکینڈل میں مکمل تحقیقات سے نہ صرف ملوث کسٹمز افسران کے خلاف مضبوط کیس بنایا جاسکتا ہے۔ بلکہ ان کی سرپرستی کرنے والے اعلیٰ افسران کے نام بھی سامنے آسکتے ہیں۔ جن کی اشیر باد کے بغیر یہ ممکن نہ تھا۔ اس میں ڈپٹی کلکٹراور ایڈیشنل کلکٹر اسلام آباد ایئرپورٹ کارگو اپریزمنٹ کے آفس شامل ہیں۔ جبکہ اس وقت ملزمان کو سہولت کاری پی ٹی اے کے اندرسے بھی ملنے پر تحقیقات ہوسکتی تھیں۔ جس پر معاملہ دبا دیا گیا۔
بعد ازاں اس معاملے میں پی ٹی اے (پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی) کی جانب سے بھی ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز اور چیف کلکٹوریٹ نارتھ اسلام آباد آفس کو درخواستیں دی گئیں کہ اس اسکینڈل پر مکمل تحقیقات انتہائی ضروری ہے۔ تاکہ ملوث کسٹم افسران کے خلاف مضبوط کیس بنایا جاسکے اور دیگر ذمہ داروں اور بغیر ڈیوٹی کلیئر کیے گئے موبائل فونز کی اصل تعداد اور چوری کی گئی ڈیوٹی کا اصل تخمینہ لگایا جاسکے۔ ذرائع کے بقول اس اسکینڈل میں پی ٹی اے اور ایف بی آر کے موبائل فونز کی درآمد اور ان کی پاکستان میں ڈیوٹی ادا کرکے رجسٹریشن کرنے کے سسٹم میں نقب زنی کی گئی۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی کے حکام سنجیدہ ہیں کہ کسٹمز کے ملوث افسران کی مدد سے ملک میں ہزاروں موبائل فونز اسمگل کرکے لانے والی کمپنیوں کے حوالے سے مکمل اعداد و شمار سامنے لائے جائیں۔ کیونکہ ان کمپنیوں کی صرف 6 کھیپوں کی چھان بین سامنے لائی گئی ہے۔ جبکہ اس سے پہلے بھی یہ کمپنیاں کراچی، لاہور اور اسلام آباد ایئرپورٹ سے ہی موبائل فونز درآمد کرتی رہی ہیں۔ جس سے امکان ہے کہ ڈیوٹی کی چوری کا تخمینہ بہت زیادہ ہوسکتا ہے۔ جس کا ریکور کیا جانا ضروری ہے۔