آصف زرداری- فریال تالپور اور مراد علی شاہ سابق صوبائی چیف سیکریٹری ممتاز شاہ کو اس منصب پر لانے کے خواہشمند تھے، فائل فوٹو
 آصف زرداری- فریال تالپور اور مراد علی شاہ سابق صوبائی چیف سیکریٹری ممتاز شاہ کو اس منصب پر لانے کے خواہشمند تھے، فائل فوٹو

جسٹس (ر) مقبول باقر کا نام بلاول نے تجویز کیا

علی جبران :
سندھ کے نگراں وزیراعلیٰ کے لئے جسٹس (ر) مقبول باقر کا نام بلاول بھٹو زرداری نے تجویز کیا۔ اس نام کے لئے چیئرمین پیپلز پارٹی کو قائل کرنے میں کراچی کے میئر مرتضیٰ وہاب نے بنیادی رول ادا کیا۔

اس سارے معاملے کے پس منظر سے واقف ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور فریال تالپور، نگراں وزیراعلیٰ سندھ کے طور پر سابق چیف سیکریٹری سندھ ممتاز شاہ کو لانا چاہتے تھے۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بھی اسی حق میں تھے۔ تاہم بلاول بھٹو زرداری کی تجویز کو اہمیت دی گئی۔

واضح رہے کہ نگراں وزیراعلیٰ سندھ کے انتخاب کے لئے پیپلز پارٹی کی چار رکنی مشاورتی کمیٹی میں آصف زرداری، فریال تالپور، بلاول بھٹو زرداری اور مراد علی شاہ شامل تھے۔ ذرائع کے مطابق اگرچہ آصف زرداری، فریال تالپور اور مراد علی شاہ نے سابق چیف سیکریٹری سندھ ممتاز شاہ کے نام پر اتفاق کرلیا تھا۔ تاہم بلاول بھٹو زرداری کا اصرار تھا کہ جسٹس (ر) مقبول باقر کو اس منصب پر لایا جائے۔

ذرائع کے بقول جسٹس (ر) مقبول باقر اگرچہ براہ راست بلاول بھٹو زرداری کی چوائس نہیں تھے۔ اس کے لئے انہیں مرتضیٰ وہاب نے قائل کیا۔ دونوں کے خاصے قریبی تعلقات ہیں۔ ذرائع نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ مرتضیٰ وہاب نے نہ صرف جسٹس (ر) مقبول باقر کے نام پر چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو قائل کیا۔ بلکہ پارٹی قیادت کو یقین دہانی بھی کرائی کہ پیپلز پارٹی کی مرضی کے ضلعی افسران کے تقرر و تبادلوں میں بطور نگراں وزیراعلیٰ جسٹس (ر) مقبول باقر کوئی رخنہ نہیں ڈالیں گے۔ اب دیکھنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی یہ خواہش کس حد تک پوری ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ وفاق اور صوبوں میں نگراں سیٹ اپ کے بعد سبکدوش حکومتوں کے دور میں تعینات ضلعی انتظامیہ کے افسران کو تبدیل کردیا جاتا ہے۔ تاکہ انتخابی عمل کی شفافیت کو یقینی بنایا جاسکے۔

ذرائع کے مطابق اگرچہ جسٹس (ر) مقبول باقر کے نام پر بلاول بھٹو زرداری کو مرتضیٰ وہاب نے قائل کیا اور اس سلسلے میں ناصر شاہ اور شہلا رضا سمیت پارٹی کے دیگر رہنما بھی مرتضیٰ وہاب کے ہمنوا تھے۔ تاہم اس انتخاب میں مرتضیٰ وہاب اور بلاول بھٹو کے مابین ایک قدر مشترک تھی کہ دونوں کراچی سے تعلق رکھنے والی کسی شخصیت کو نگراں وزیراعلیٰ بنانے کے حق میں تھے۔ جبکہ ممتاز علی شاہ کا آبائی تعلق سندھ کے شہر میرپور خاص سے ہے۔

کم از کم پچھلے دس برس سے سندھ میں یہ روایت چلی آرہی ہے کہ نگراں وزیر اعلیٰ کراچی سے لیا جارہا ہے۔ جو سندھی اسپیکنگ نہیں ہوتا۔ دو ہزار تیرہ اور پھر دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات سے پہلے صوبے میں بننے والی دونوں حکومتوں کے وزرائے اعلیٰ کا تعلق کراچی سے ہی تھا۔ ان دونوں کے نام پیپلز پارٹی نے دیئے تھے۔ دو ہزار تیرہ میں سندھ کے نگراں وزیراعلیٰ جسٹس (ر) زاہد قربان علی تھے۔ اس سے قبل وہ چیئرمین سندھ لینڈ کمیٹی اور چیئرمین صوبائی زکوٰۃ کونسل رہ چکے تھے۔ یعنی پیپلز پارٹی کے آدمی ہی سمجھے جاتے تھے۔

جسٹس (ر) قربان علی اردو اسپیکنگ اور بوہری کمیونٹی سے ہیں۔ اسی طرح دو ہزار اٹھارہ میں بھی پیپلزپارٹی کے تجویز کردہ سابق چیف سیکریٹری سندھ فضل الرحمن کو نگراں وزیراعلیٰ سندھ بنایا گیا تھا۔ وہ اگرچہ راولپنڈی کی پیدائش اور پنجابی اسپیکنگ تھے۔ لیکن ان کا تعلق کراچی سے ہی تھا کہ زندگی کا زیادہ عرصہ انہوں نے اسی شہر میں گزارا۔ وہ سندھ کی بیورو کریسی میں مشرف کے دور سے کردار ادا کرتے چلے آرہے تھے۔ ان کے ایم کیو ایم کے ساتھ بھی اچھے تعلقات تھے۔ لہٰذا ایم کیو ایم نے بھی ان کے نام پر اعتراض نہیں کیا تھا۔

الیکشن کمیشن پاکستان نے سبکدوش حکومتوں کی ضلعی انتظامیہ کو تبدیل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ تاہم ماضی میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ یہ تقرر و تبادلے نمائشی ہوتے ہیں۔ عموماً یہی ہوتا ہے کہ ایک ضلع کے افسر کا دوسرے ضلع اور دوسرے کا تیسرے ضلع میں تبادلہ کر دیا جاتا ہے۔ یعنی چہرے وہی پرانے رہتے ہیں۔ اضلاع بدل جاتے ہیں۔ کوئی نیا چہرہ مشکل سے آتاہے۔ مثلاً سندھ میں پچھلے دس برس سے یہی عمل ہوتا آرہا ہے کہ الیکشن کمیشن پاکستان کے احکامات پر سبکدوش حکومت ضلعی انتظامیہ میں اس نوعیت کا ردوبدل کرتی ہے کہ سکھر کے افسران کا لاڑکانہ، لاڑکانہ کے افسران کا دادو اور میرپور خاص کے افسران کو سکھر بھیج دیا جاتا ہے۔ یوں اِدھر سے اُدھر کئے جانے والے یہ تمام افسران تقریباً وہی ہوتے ہیں۔ جو سبکدوش ہونے والی حکومت نے اپنے دور میں لگائے ہوتے ہیں۔ اس بار بھی کسی خاص تبدیلی کا امکان نہیں۔ اور ممکنہ طور پر پرانا عمل ہی دہرایا جائے گا۔

سندھ کے نگراں وزیراعلیٰ کے طور پر اپوزیشن پارٹی ایم کیو ایم نے بائیس گریڈ کے سابق بیورو کریٹ شعیب صدیقی اور بائیس گریڈ کے ہی ایک اور سابق بیورو کریٹ یونس ڈھاگا کے نام تجویز کئے تھے۔ ان میں سے خاص طور پر یونس ڈھاگا ایک اصول پرست افسر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ مشرف دور میں انہوں نے اس حوالے سے بہت شہرت حاصل کی تھی۔ تاہم نگراں وزیر اعلیٰ سندھ کے طور پر قرعہ فال پیپلز پارٹی کے تجویز کردہ جسٹس (ر) مقبول باقر کے نام نکلا۔ قبل ازیں ان کا نام نگراں وزیر اعظم کی دوڑ میں بھی شامل تھا۔ جسٹس (ر) مقبول باقر بھی ایک درویش صفت اور اصول پرست جج کی شہرت رکھتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے جج کے طور پر ان کے دلیرانہ فیصلوں کی مثالیں آج بھی دی جاتی ہیں۔