اقبال اعوان :
ابراہیم حیدری کی ساحلی جیٹیاں جرائم کا گڑھ بن گئیں۔ ایرانی تیل کی ڈمپنگ، منشیات اور گٹکے کی کھلے عام فروخت کے ساتھ ساتھ یہاں بنائے گئے ڈیروں پر غیرقانونی تارکین وطن کو رکھا جارہا ہے۔ مقامی ماہی گیروں کو بھتے نہ ادا کرنے پر جیٹیوں پر جانے نہیں دیا جاتا۔ پہلے سیاسی سرپرستی ہونے پر مقامی لوگ احتجاج نہیں کر سکتے تھے۔ تاہم سندھ حکومت کے خاتمے کے بعد مکین سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں اور نگراں حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ غیر قانونی طور پر جیٹیاں بنا کر ساحلی علاقوں کی جانب لوہے کے گیٹ لگا کر سمندر کا بند راستہ بند کھولا جائے۔ منشیات اور دیگر غیر قانونی کام بند کرائے جائیں۔
دوسری جانب احتجاج کرنے والوں کو ساحلی وڈیروں کے کارندے سنگین دھمکیاں دے رہے ہیں۔ غیرقانونی جیٹیوں کو مزید وسیع کرنے کے لیے سمندر کی جانب ملبہ ڈال کر بھرائی کا کام بھی دن رات جاری ہے۔
واضح رہے کہ شہر میں غیرقانونی تجاوزات کے خلاف چند سال قبل جب آپریشن کا آغاز ہوا تھا تو اس دوران ابراہیم حیدری کے ساحلی علاقوں میں سرکاری زمین پر قبضہ کر کے غیرقانونی طور پر فیکٹریاں اور کارخانے بنائے گئے تھے۔ جبکہ ابراہیم حیدری کی سرکاری جیٹی کے علاوہ درجن سے زائد غیر قانونی جیٹیاں بھی بنائی گئی تھیں۔
اس دوران دہشت گردی کے خلاف مختلف فیصلے کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان غیرقانونی جیٹیوں کے ذریعے منشیات، ایرانی تیل اور دیگر اشیا اسمگلنگ ہوتی ہے۔ ابراہیم حیدری کی سرکاری جیٹی سے چشمہ گوٹھ تک کے ساحل پر درجن سے زائد جیٹیاں بنا کر ساحل کو بند کر دیا گیا ہے اور مرکزی سڑک پر دیواریں بنا کر جیٹیوں کو جانے والے راستوں پر لوہے کے گیٹ لگا کر باقاعدہ چوکیدار بٹھا دیے گئے ہیں۔
ساحلی وڈیروں میں پی ایس 129 کے صدر جان عالم جاموٹ، ان کے بھائی سابق ایم پی اے سندھ محمود عالم جاموٹ اور ایک بھائی گوگی دادا اور دیگر شامل ہیں۔ پیپلزپارٹی کی حکومت میں تھی تو کوشش کی گئی کہ غیر قانونی جیٹیوں کو بھی قانونی طور پر شامل کر لیا جائے۔ تاہم وفاقی حکومت اس کے لئے تیار نہیں تھی کہ ابراہیم حیدری میں سرکاری جیٹی موجود ہے اور 1994ء سے کورنگی فش ہاربر بنا ہوا ہے۔ جس کو غیر قانونی جیٹیوں کو چلانے والوں نے چلانے نہیں دیا اور وہ تاحال غیر فعال ہے۔
جبکہ سابق حکومت کے دوران غیر قانونی جیٹیوں کے حوالے سے مختلف آپریشن بھی رکوا دیئے گئے تھے۔ وفاقی تحقیقاتی اداروں اور نیب سمیت دیگر تحقیقاتی اداروں کی جانب سے رپورٹ تیار کی گئی اور انکوائریاں جاری ہیں کہ غیر قانونی طور پر اربوں روپے مالیت کی سرکاری زمینوں پر قبضے ہو رہے ہیں۔ جبکہ ان غیرقانونی جیٹیوں پر مختلف جرائم کی بھرمار ہے۔ یرغمالی بنے ماہی گیر پریشانی میں بھتہ ادا کر کے کام چلا رہے ہیں۔ اب سندھ حکومت کے جانے کے بعد ماہی گیر اور مقامی ساحلی آبادیوں کے مکین سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں کہ ساحل پر قبضے کے بعد بھتہ ادا کیے بغیر جیٹیوں پر نہیں جا سکتے۔
جان عالم جاموٹ جیٹی، ابراہیم تیل والا جیٹی، سیٹھ گلو کی جیٹی، جاموٹ جیٹی، شہزاد جاموٹ جیٹی اور مختلف ناموں سے درجن سے زائد جیٹیاں بنی ہوئی ہیں اور ان کو مزید سمندر تک پھیلانے کا کام تیزی سے جاری ہے۔ جان عالم جاموٹ جیٹی پر مشینری لگی ہوئی ہے اور پتھر و ملبہ ڈال کر جیٹی وسیع کرنے کا کام جاری ہے۔ ان غیر قانونی جیٹیوں پر دکانوں کے ساتھ ساتھ ڈیرے بھی بنائے جارہے ہیں۔ جہاں غیر قانونی تارکین وطن کو کرائے پر رکھا جارہا ہے۔
جبکہ کراچی ابراہیم حیدری کے ساحل سے ٹھٹھہ، بدین تک گٹکے کا کاروبار کھلے عام جاری ہے۔ یہ گٹکا شہر میں بھی سپلائی ہوتا ہے۔ منشیات کے کاروبار کا یہ عالم ہے کہ ابراہیم حیدری سے منشیات لے کر جانے والی لانچیں پڑوسی ملک کے سمندر میں ایک سال کے دوران دو مرتبہ پکڑی جا چکی ہیں۔ جبکہ ابراہیم حیدری کے ساحلی علاقوں اور سامنے جزیروں سے وفاقی نارکوٹکس کے ادارے منشیات برآمد کر چکے ہیں۔ ایرانی تیل بلوچستان سے لانچوں میں لاکر ان غیر قانونی جیٹیوں پر ڈمپ کیا جاتا ہے اور 80 فیصد لانچوں میں ایرانی ڈیزل استعمال کیا جاتا ہے۔ ان درجن سے زائد جیٹیوں پر لانچوں کو باندھنے پر بھی بھتہ وصول کیا جاتا ہے۔
جبکہ سی فوڈز فیکٹریوں سے کمیشن لے کر سیٹنگ کی گئی ہے کہ شکار کی گئی مچھلیاں، جھینگے، کیکڑے، جیلی فش سمیت دیگر آبی حیات کراچی فشری کے بجائے فیکٹریوں میں بھیجی جائے گی۔ ممنوعہ جال قطرہ کا استعمال بہت زیادہ ہے۔ 100 سے زائد بڑی قطرہ لانچیں شام سے رات تک ساحلی علاقوں، جزیروں، تمر کے جنگلات کے قریب شکار کرتی ہیں اور مال چکن فیڈز کی فیکٹریوں اور سی فوڈز فیکٹریوں کو سپلائی کیا جاتا ہے۔ ابراہیم حیدری کی ساحلی آبادیوں بالخصوص پاور ہائوس کالونی، سندھی پاڑہ، شیرازی پاڑہ اور دیگر علاقوں میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ جبکہ احتجاج کرنے والوں کو وڈیروں کے کارندے سنگین دھمکیاں دے رہے ہیں۔ جس سے حالات کشیدہ ہو چکے ہیں۔ پولیس ساحلی وڈیروں کے سامنے بے بس دکھائی دیتی ہے اور اپنا حصہ وصول کر کے خاموش تماشائی ہے۔