اسلام آباد: سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن سے متعلق کیس کی سماعت کرنے والے بینچ پر حکومتی اعتراضات مسترد کرتے ہوئے اسے مذموم مقاصد کے لیے عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دیا ہے۔ ججوں پر اعتراض کی پی ڈی ایم حکومت کی متفرق درخواست کو بد نیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ درخواست نیک نیتی کے بجائے بینچ کو ہراساں کرنے کے لیے دائر کی گئی، اعتراض کا مقصد چیف جسٹس کو بینچ سے الگ کرنا،عدالت کی اتھارٹی کو خراب کرنا اور کچھ ججوں کی قدر و منزلت کو داغدار کرنا تھا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ متفرق درخواست میں ججوں پر لگائے گئے جانبداری اور مفادارت کے ٹکرائو کے الزامات ثابت نہیں ہوئے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے چھ جون کو درخواست پر فیصلہ محفوظ کیاتھا جسے گزشتہ روز جسٹس اعجاز الاحسن نے سنا دیا۔فیصلہ 32صفحات پر مشتمل ہے جسے چیف جسٹس پاکستان نے تحریرکیا ہے۔فیصلے میں مبینہ لیک آڈیوز کے بیک گراونڈ کے طور پر پنجاب اور کے پی کے کے الیکشن پرا سس کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے اور کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے دو ججو ں نے الیکشن میں تا خیر کے خلاف سوموٹو لینے کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان کو نو ٹ بھجوایا اور اسی دوران ایک ٹوئٹر اکائونٹ indibellنے تین آڈیوز جاری کر دیں جس میں چودھری پرویز الہی ٰکے ساتھ سپریم کورٹ کے جج سید مظاہر علی اکبر نقوی ،سپریم کورٹ بار کے صدر عابد ذبیری اورایک ایڈوکیٹ سپریم کورٹ محمد ارشد جو ئیہ کے ساتھ مبینہ گفتگو تھی جس کے دو ماہ کے عرصہ میں اسی ٹوئٹر اکائونٹ نے مزید آڈیو لیکس جاری کیں جن میں ایک چیف جسٹس کی خوش دامن کی بھی آڈیو تھی،حکومت نے آڈیو لیکس کی حقیقت معلوم کیےبغیر فوری طور پر ججو ں کو بدنام کر نے کے لیے ان آڈیو لیکس کی توثیق کر دی،، حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن تشکیل دیا لیکن اس کمیشن کی تشکیل سے پہلے حکومت نے چیف جسٹس آف پاکستان سے مشاورت نہیں کی۔ فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ نے جب صوبے میں اسمبلی کی تحلیل کے نو ے رو ز کے اندر الیکشن کرا نے کا حکم دیا تو اس حکم نا مے نے وفا قی حکومت کو نا را ض کر دیا ۔
عدالت نے نو ے رو ز کے اندر الیکشن نہ کرانے کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو بھی مسترد کیا پھر بھی وفا قی حکومت نے عدالتی حکم نا مے کو نہ ما ننے کو چنا،اور چار میں سے دو صوبو ں میں ایسی غیر منتخب حکومت جاری رہی جس کا اختتام نہ نظر آنے والا تھا۔جب سے آڈیو ریکارڈنگز کو لیک کیا گیا ، عدالتی فیصلو ں اور کاروائیوں کے سامنے وفا قی حکومت اور اس کے اتحادی جما عتو ں کی مزاحمت اب ججو ں کو دھمکیوں اور حملو ں تک پہنچ گئی،ججو ں پر حملو ں کی ایک واضح مثال 15مئی کو سامنے آئی جب سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل کو سن رہی تھی کہ حکومتی اتحادی جما عتو ں نے عدالت کے با ہر جا رحانہ احتجاج کیا جس میں چیف جسٹس کو سخت نتائج کی دھمکیاں دی گئیں،اس احتجاج کا سب سے متنازعہ پہلو یہ تھا کہ وفا قی حکومت نے اتحادی جما عتو ں کو سپریم کورٹ کے سامنے احتجاج میں معا ونت کی جہا ں عمومی حالات میں ریڈ زون میں احتجاج کی اجا زت نہیں ہو تی، حکومتی مشینری نے احتجاجی جتھو ں کے دا خلے کی اجا زت دی اور بہتان لگانے والو ں کی حد تک خاموش تماشائی بن گئی۔
اس معا ملے میں قابل فہم یہ با ت ہے کہ اس احتجاج کا مقصد عدالت اور ججز پر حمایت میں فیصلے لینے کے لیے دبا و ڈالنا تھا یا دوسری صورت میں ججز کوئی فیصلے نہ کر یں۔حکومت کا پاور شو عدلیہ کی آزادی پر براہ راست حملہ تھا۔حکومت کا رویہ تعاون نہ کر نیو الا تھا اس کے باوجود کہ عدالتی فیصلو ں پر عمل نہ کر نے والوں کو سزا دینا کے لیے عدالت کے پاس آئینی اختیارات تھے عدالت نے اپنے فیصلو ں پر عمل نہ کر نے پر تحمل کا مظاہرہ کیا ،عدالت نے اس تحمل کا مظاہرہ الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل کے دوران بھی کیا جس میں عدالت نے 14مئی کو الیکشن کرا نے کا حکم پاس کر رکھا تھا۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تین ججز پر اٹھائے گئے اعتراضات کی قانون کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں، ججز پر اعتراض کی درخواست اچھی نیت کے بجائے جج کو ہراساں کرنے کیلئے دائر کی گئی، سپریم کورٹ نے نوٹ کیا کہ وفاقی حکومت نے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرکے مختلف چالوں اور حربوں سے عدالتی فیصلوں میں تاخیر کی اور عدالت کی بے توقیری کی۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وفاقی وزرا نے مختلف مقدمات سننے والے ججز کیخلاف بیان بازی کی،، وزرا کے اشتعال انگیز بیانات کا مقصد وفاقی حکومت کے ایجنڈے کو تقویت دینا تھا، سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کے ان مقدمات کو انتہائی تحمل اور صبر سے برداشت کیا،سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں لکھا ہے کہ حکومت نے عدالت کی بے توقیری کا سلسلہ یکم مارچ 2023سے شروع کیا جب کہا گیا کہ چار تین سے فیصلہ مسترد ہوا، وفاقی حکومت چار اپریل کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے بجائے الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل کے پیچھے چھپ گئی، وفاقی حکومت کا مقصد اپنی بے عملی کو جواز دینا تھا، اس کے بعد پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈرز قانون منظور کیا،عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈرز قانون کو سپریم کورٹ غیر آئینی قرار دے چکی، وفاقی حکومت نے متعدد آئینی مقدمات سے ججز کو الگ کرنے کیلئے درخواستیں دائر کیں، آڈیو لیک کمیشن میں بھی ایسی ہی مفادات کا ٹکرا اور تعصب جیسی بے سروپا بنیادوں پر درخواست دائر کی، آڈیو لیکس کیس کیخلاف اعتراض کی درخواست دائر کرنے کا مقصد چیف جسٹس پاکستان کو بنچ سے الگ کرنا تھا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے پر آئین میں نتائج دیے گئے ہیں، ججز پر اعتراضات کرنے والی حکومتی درخواست عدلیہ پر حملہ ہے، ججز پر اعتراضات کرنے والی حکومتی درخواست مسترد کی جاتی ہے، بنچ کے ججز پر اعتراض کیلئے دائر کی گئی متفرق درخواست مذموم مقاصد کیلئے دائر کی گئی۔ واضح رہے پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کی جانب سے بینچ میں شامل چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے استدعا کی گئی تھی کہ وہ یہ درخواست نہ سنیں اور خود کو بنچ سے علیحدہ کر لیں۔