امت رپورٹ:
عام انتخابات چھ نومبر کو کرانے سے متعلق صدر عارف علوی کی تجویز، درمیانی راستہ نکالنے کی ایک کھوکھلی کوشش ہے۔
اس حوالے سے الیکشن کمیشن پاکستان کو لکھے گئے ان کے خط پر بیشتر آئینی و قانونی ماہرین حیران ہیں۔ اس تناظر میں یہ خط محض کاغذ کا پرزہ ثابت ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ پاکستانی تھنک ٹینک پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کے بقول وہ خود حیران ہیں کہ صدر کی طرف سے اتنی کنفیوژڈ اور مبہم تجویز کیوں آئی ہے۔ اور یہ کہ الیکشن کمیشن کو صدر علوی کے خط کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ اس نوعیت کا خط صدر کے منصب کے شایان شان نہیں۔
دوسری جانب بہت سے تجزیہ کاروں، صحافیوں اور سیاسی پنڈتوں کی یہ پیشن گوئیاں بھی غلط ثابت ہو گئیں۔ جن میں کہا جارہا تھا کہ صدر عارف علوی جلد الیکشن کی تاریخ دینے والے ہیں۔ لیکن دو طرفہ دبائو کے مابین سینڈوچ بنے صدر عارف علوی نے صرف تجویز پر اکتفا کیا۔ تاکہ اپنی پارٹی قیادت اور ملکی فیصلہ ساز قوتوں دونوں کو بیک وقت راضی کیا جا سکے۔ تاہم ان کی یہ کوشش کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ صدر مملکت نے اپنے خط میں آئین کے جس آرٹیکل اڑتالیس (پانچ) کا ذکرکیا ہے۔ وہ واضح طور پر کہتا ہے ’’جبکہ صدر اسمبلی تحلیل کرے تو عام انتخابات منعقد کرانے کے لیے، کوئی تاریخ مقرر کرے گا، جو اسمبلی تحلیل کیے جانے کی تاریخ سے نوے دن سے زیادہ نہیں ہو گی‘‘۔
یعنی آئین کی اس شق میں کہیں نہیں لکھا کہ صدر انتخابات کی تاریخ تجویز کرنے سے متعلق الیکشن کمیشن کو خط لکھے گا۔ تاریخ مقرر کرنے کے واضح الفاط درج ہیں۔ جب پنجاب میں الیکشن کرانے کا معاملہ تھا تو صدر کی ٹویٹ تھی ’’صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے تیس اپریل کو پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا‘‘۔ اب ان کے اسی آفیشل ٹوئٹر (ایکس) اکائونٹ پر ٹویٹ ہے کہ ’’صدر مملکت نے عام انتخابات چھ نومبر تک کرانے کی تجویز دے دی‘‘۔
انتخابات کی تاریخ تجویز کرنے سے متعلق الیکشن کمیشن کو صدر مملکت کے مبہم خط پر ماہرین ہیں۔ لیکن تحریک انصاف نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اپنے تئیں گیند عدالت عظمیٰ کے کورٹ میں ڈال دی ہے۔ تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ’’صدر مملکت نے انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے آرٹیکل اڑتالیس (پانچ) کے تحت اپنا دستوری فریضہ سر انجام دیا اور معاملہ سپریم کورٹ کو بھجوایا ہے۔ پوری قوم کی نگاہیں اب سپریم کورٹ پر لگی ہیں‘‘۔
صدر مملکت عارف علوی نے درمیان کا راستہ نکالنے کی کوشش کیوں کی؟ اس کا ایک پورا پس منظر ہے۔ ایوان صدر کی سن گن رکھنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر عارف علوی کو خود بھی ادراک تھا کہ اگر وہ انتخابات کی واضح تاریخ کا اعلان کر بھی دیتے ہیں تو پھر بھی نوے روز میں الیکشن نہیں ہوں گے۔ لیکن وہ عمران خان سے اپنی وفاداری جتلانے اور ان کے جنونی پیروکاروں کے غضب سے بچنے کے لئے ابتدا میں الیکشن کی تاریخ کا واضح اعلان کرنا چاہتے تھے۔ تاہم اس کشمکش کا شکار رہے کہ الیکشن کی تاریخ دے کر وہ اپنا ’’رانجھا‘‘ تو راضی کر لیں گے۔ لیکن اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔دوسری جانب پارٹی کی طرف سے دبائو بڑھتا جارہا تھا۔ ان کی کیفیت بیان کرنے کے لئے ایک قصہ پڑھیے۔
مرحوم صاحب طرز شاعر مصطفی زیدی نے اپنی دوست شہناز کے عنوان سے نظمیں اور غزلوں کے علاوہ اشعار بھی لکھے۔ جب وہ ایک دورے پر لندن گئے تو وہاں کی رنگینی اور شراب خانوں میں کھو گئے۔ لیکن ساتھ ہی شہناز کی یاد بھی تڑپا رہی تھی۔ اندرونی کشمکش کی یہ کیفیت بیان کرنے کے لئے انہوں نے شعر لکھا تھا ’’آج شہر لندن میں معرکے کی صورت ہے۔ اک طرف تیری یاد اک طر ف صنم خانے‘‘۔ ایوان صدر میں عارف علوی کو کچھ اسی نوعیت کا معرکہ درپیش تھا۔ البتہ یہ معرکہ مصطفیٰ زیدی کی طرح رومانوی نہیں، سیاسی تھا۔ صدر کو خوف تھا کہ اگر الیکشن کی تاریخ نہ دی تو عمران اور اس کے پیروکاروں کی نظر میں وہ غدار ٹھہریں گے۔ تاریخ دے دیتے ہیں تو پھر ان کے زیر عتاب آجائیں گے۔ جنہوں نے انہیں سمجھا دیا تھا کہ ملک میں نیا سیاسی بحران پیدا کرنے سے باز رہیں۔
صدر عارف علوی پچھلے ایک سے ڈیڑھ ہفتے سے اسی کشمکش کی کیفیت میں مبتلا تھے۔ یوں ان کی جانب سے الیکشن کی تاریخ کے اعلان میں مسلسل تاخیر ہو رہی تھی۔ یہ خبر اب گھسی پٹی ہو چکی ہے کہ گزشتہ جمعہ کو صدر علوی نے الیکشن کی تاریخ دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ لیکن دو اہم شخصیات سے ہونے والی ملاقات کے بعد انہوں نے پراسرار خاموشی اختیار کر لی۔ پھر پیر کے دن سے اچانک یہ خبریں چلنے لگیں کہ صدر کسی بھی وقت الیکشن کی تاریخ کا اعلان کر سکتے ہیں۔ حتی کہ ایک معروف اینکر نے منگل کے روز فجر سے کہیں پہلے یہ ٹویٹ کر دی کہ ’’مصدقہ ذرائع کے بقول غالب امکان ہے کہ صدر عارف علوی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے والے ہیں‘‘۔ لیکن منگل کا سارا دن خاموشی سے گزر گیا۔
ذرائع کے مطابق اس دوران صدر علوی پر عمران خان کا دباؤ بڑھتا جارہا تھا۔ جیل میں چیئرمین پی ٹی آئی سے ملاقات کرنے والے وکلا انہیں مسلسل پیغامات بھیج رہے تھے۔ جبکہ سوشل میڈیا پر بھی ان کی شان میں ہلکی ہلکی موسیقی شروع ہو چکی تھی۔ اس سے قبل پی ٹی آئی کی جانب سے براہ راست صدر علوی کو لکھے گئے خط میں یہ انتباہی یاد دہانی کرائی گئی تھی کہ ’’آپ نے وزیر اعظم کے مشورے پر نو اگست کو قومی اسمبلی تحلیل کی۔ اب انتخابات کی تاریخ کا تعین بھی آپ کے ذمے ہے۔ بطور صدر مملکت آپ انتخابات کی تاریخ کے فوری تعین کا آئینی تقاضا پورا کریں‘‘۔ یعنی بین السطور میں انہیں سمجھا دیا گیا تھا کہ ا لیکشن کی تاریخ دینے کا آئینی فریضہ پورا نہ کیا تو یہ آئین اور پارٹی دونوں سے غداری ہو گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان پہلے ہی صدر علوی سے اس بات پر ناراض تھے کہ انہوں نے اپنی آئینی مدت پوری ہونے سے قبل الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیوں نہیں کیا؟ اگر وہ پہلے تاریخ دے دیتے تو نون لیگ اور دیگر مخالفین کو یہ کہنے کا جواز نہ ملتا کہ آئینی مدت پوری ہونے کے بعد وہ بطور صدر اب الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں کر سکتے۔ ذرائع کے بقول اس مسلسل دباؤ سے نکلنے کے لئے صدر عارف علوی کوئی ایسا درمیانی راستہ تلاش کر رہے تھے۔ جس سے پارٹی قیادت بھی مطمئن ہو جائے اور مقتدر حلقے بھی ناراض نہ ہوں۔ آخرکار انہوں نے الیکشن کی واضح تاریخ کے اعلان کے بجائے محض تجویز دینے کا فیصلہ کیا۔
بظاہر لگتا ہے کہ یہ راستہ انہوں نے پارٹی قیادت سے مشاورت کے بعد اختیار کیا۔ بصورت دیگر پی ٹی آئی کور کمیٹی کا بیان ان کے خط کے حق میں نہیں آنا تھا۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ پارٹی قیادت کے سامنے انہوں نے اپنی مجبوریاں بیان کی ہوں گی کہ اگر وہ عمران خان کی خواہش کے عین مطابق الیکشن کی تاریخ کا واضح اعلان کر دیتے ہیں تو مقتدر حلقوں سے تعلقات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ جس پر پارٹی قیادت نے انہیں درمیانی راستہ اپنانے کا گرین سگنل دیا۔
درمیانی راستہ اپنا کر صدر عارف علوی نے اپنی پارٹی قیادت کو تو مطمئن کر دیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ جنہوں نے انہیں الیکشن تاریخ کو نہ چھیڑنے کا مشورہ دیا تھا۔ ان کا ردعمل کیا آتا ہے۔ یا پھر ان کے نزدیک بھی صدر علوی نے درست راستہ اختیار کیا؟