سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں آرمی ہیڈ کوارٹر کے ارد گرد جھڑپوں کے دوران گریٹر نیل پیٹرولیم آئل کمپنی کے ٹاور میں آگ لگ گئی جبکہ العبید شہر میں بھی لڑائی کی اطلاعات ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق نیم فوجی دستوں نے مسلسل دوسرے روز بھی فوج کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ کیا۔
خرطوم کے ایک رہائشی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’فوجی ہیڈ کوارٹر کے ارد گرد مختلف قسم کے ہتھیاروں کے ساتھ جھڑپیں ہو رہی ہیں۔
جنوبی خرطوم میں دیگر عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ فوج نے ریپڈ سپورٹ فورس (آر ایس ایف) کے نیم فوجی دستوں کے ٹھکانوں کو توپ خانے سے نشانہ بنایا۔
عینی شاہدین نے 350 کلومیٹر جنوب میں واقع العبید شہر میں بھی لڑائی کی اطلاع دی ہے۔
44 سالہ نوال محمد نے کہا کہ ہفتہ اور اتوار کو عام فوج اور نیم فوجی دستوں کے درمیان لڑائی شروع ہونے کے بعد سے سب سے زیادہ پرتشدد رہی ہے۔
ان کا خاندان قریبی جھڑپوں سے کم از کم 3 کلومیٹر دور رہتا ہے لیکن محمد کا کہنا ہے کہ دھماکوں کے زور سے ’دروازے اور کھڑکیاں ہل گئیں‘ جبکہ وسطی خرطوم میں کئی عمارتوں کو آگ لگا دی گئی۔
سوشل میڈیا پوسٹس میں صارفین نے خرطوم اسکائی لائن کے اہم مقامات کے آگ کے شعلوں کی زد میں آنے کی فوٹیج شیئر کی جس میں وزارت انصاف اور گریٹر نیل پیٹرولیم آئل کمپنی کا ٹاور بھی شامل ہے۔
دیگر ویڈیوز میں میں عمارتوں کو دیکھا جا سکتا ہے جن کی کھڑکیاں جل گئی ہیں اور دیواریں جل رہی ہیں یا گولیوں سے چھلنی ہیں۔
دارالحکومت کے مشرقی علاقے کے ایک رہائشی بدر الدین بابیکر نے کہا کہ ان اداروں کو اس طرح تباہ ہوتے دیکھنا افسوسناک ہے۔
آرمڈ کانفلیکٹ لوکیشن اینڈ ایونٹ ڈیٹا پروجیکٹ کے مطابق 15 اپریل کو فوج کے سربراہ عبدالفتاح البرہان اور ان کے سابق نائب آر ایس ایف کمانڈر محمد حمدان ڈاگلو کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 7 ہزار 500 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
شہریوں اور امدادی کارکنوں نے متنبہ کیا ہے کہ اصل ہلاکتوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ زخمی یا ہلاک ہونے والے بہت سے افراد کبھی بھی اسپتالوں یا مردہ خانوں میں نہیں جاتے۔
رضاکارانہ طور پر جمہوریت کے حامی وکلاء کی ایک کمیٹی نے اتوار کے روز کہا کہ خرطوم میں جمعے سے جاری لڑائی میں درجنوں شہری ہلاک ہو چکے ہیں جو ’بین الاقوامی انسانی قوانین کی مسلسل خلاف ورزی‘ ہے۔
گروپ نے ایک بیان میں کہا کہ “ہم ”من مانی گولہ باری“ کے نتیجے میں ہلاک ہونے شہریوں کی تعداد کا تعین کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
سوڈان میں جاری جنگ نے پہلے سے ہی کمزور انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیا ہے، ملک کے 80 فیصد اسپتال بند ہو چکے ہیں جبکہ لاکھوں افراد شدید بھوک کا شکارہیں۔
50 لاکھ سے زائد افراد بے گھرہیں جن میں سے 28 لاکھ افراد خرطوم کے گنجان آباد علاقوں میں مسلسل فضائی حملوں، توپ خانے کی فائرنگ اور سڑکوں پر ہونے والی لڑائیوں کے باعث فرار ہو چکے ہیں۔
خرطوم چھوڑنے سے انکار کرنے والے لاکھوں افراد شہر میں ہی رہتے ہیں جہاں پانی، خوراک اور بجلی کی فراہمی ہوتی ہے۔
تشدد دارفور کے مغربی علاقے میں بھی پھیل گیا ہے، جہاں آر ایس ایف اور اتحادی ملیشیا کی طرف سے نسلی بنیادوں پر حملوں نے ممکنہ جنگی جرائم کے بارے میں بین الاقوامی فوجداری عدالت کی طرف سے نئے سرے سے تحقیقات کا آغاز کیا ہے۔
جنوبی کوردوفان کے علاقے میں بھی لڑائی جاری ہے، جہاں عینی شاہدین نے اتوار کو ایک بار پھر فوج اور آر ایس ایف کے درمیان العبید میں توپ خانے کی فائرنگ کے تبادلے کی اطلاع دی۔