ایسا اختیار نہیں چاہئے جس سے ملک کو نقصان ہو: چیف جسٹس

 

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے خلاف آئینی درخواستوں کی سماعت 3 اکتوبر تک ملتوی کر دی جبکہ فریقین کو 25 ستمبر تک عدالت کے سوالوں کے جواب کے ساتھ تحریری دلائل جمع کرانے کی ہدایت کردی۔پیر کے روز چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ اجلاس منعقد ہوا جس میں تمام 15 ججز موجود تھے۔سپریم کورٹ میں فل کورٹ بینچ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت کی جبکہ ملکی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کی کارروائی براہ راست نشر کی گئی ۔اٹارنی جنرل نے بیرون ملک روانہ ہو نا تھا جس کی وجہ سے سماعت ملتوی کی گئی ۔اس موقع پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بینچوں کی تشکیل سے متعلق دونوں سینئر ججوں سے مشاورت کی ہے اور دونوں سینئر ججوں جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجاز الاحسن نے مجھ سے اتفاق کیا ہے، اس ہفتے بینچز کی تشکیل اب میں کر سکوں گا، ہم آپس میں مشاورت کر لیں گے کہ بینچز کیسے تشکیل دینے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس میں کہا مارشل لا دور کے عدالتی فیصلوں کا میں تو پابند نہیں، کوئی اور ہو تو ہو،میں نے آئین کے تحت حلف لیا ہے ، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے آئین کی کیا خلاف ورزی ہوئی؟ وکیل خواجہ طارق رحیم اور امتیاز صدیقی نے دوران دلائل موقف اپنایا کہ ایکٹ عدلیہ کی آزادی کے خلاف اورچیف جسٹس کے انتظامی اختیار میں مداخلت ہے ۔ چیف جسٹس نے ماضی میں آرٹیکل 184/3کے تحت سننے والے مقدمات کے فیصلوں سے ہونے والے نقصانات کا تذکرہ کیا اور آبزرویشن دی کہ ریکوڈک کیس کے فیصلے کے نتیجے میں پاکستان پر 6.5 ارب ڈالر کا جرمانہ عائد ہوا،عدلیہ کی اس آزادی کا کیا کریں گے جس سے پاکستان کی آزادی دائو پر لگ جائے ، مجھے ایسے اختیارات دینا بھی چاہئیں گے تو نہیں لوں گا، آرٹیکل 184/3کے غلط استعمال پر ہزاروں آرٹیکلز لکھے گئے اور کہا گیا کہ عدالت نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ،انا اور تکبر ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے، مان لیں کہ ماضی میں ہم نے غلطیاں کیں ،انا اور تکبر کو ایک طرف رکھ کر ملک کا ذرا سوچنا چاہئے،ہم مقدمات کے فیصلے کرنے کی تنخواہ لے رہے ہیں ۔

چیف جسٹس قاضی نے سوال اٹھایا کہ 2019سے اب تک چار سال ہوئے لیکن فل کورٹ میٹنگ نہیں ہوئی،اس دوران زیر التوا مقدمات کی تعداد 40 ہزار سے بڑھ کر 60 ہزار ہوگئی ،چیف جسٹس کی مرضی ہے کہ فل کورٹ بلائے یا نہ بلائے،چیف جسٹس کی مرضی کہ بینچ بنائے یا نہ بنائے ،کیا یہ رولز تبدیل نہیں ہوسکتے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا سپریم کورٹ نے 1980میں رولز بنائے اور 40 سال تک اس میں تبدیلی نہیں کی تو پارلیمنٹ نے قواعد تبدیل کردیئے ۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا اگر چیف جسٹس فل کورٹ میٹنگ بلانے سے انکار کرے تو کیا پارلیمنٹ مداخلت نہیں کرے گی ؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم نے اپناکام نہیں کیا اور سوئے رہے تو پارلیمنٹ نے کردیا ۔جسٹس اعجازلاحسن نے سوال اٹھایا کہ کیا آئین کے تحت حاصل اختیار کے ذریعے بنائے گئے قواعد سادہ قانون کے ذریعے تبدیل کئے جاسکتے ہیں ؟ جسٹس سردار طارق مسعود نے سوال اٹھا یا کہ اگر عدالت نے پریکٹس پروسیجر ایکٹ کو درست قانون قرار دیدیا تو اس دوران جو فیصلے ہوئے، ان کا کیا ہوگا جس کے جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس پر یہ اصول لاگو ہوگا کہ جو اہوا سو ہوا ۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا متاثرہ فریق داد رسی کے لئے اپیل میں جاسکتا ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی شا مل تھے ۔92 نیوز کے مطابق جسٹس اطہر من اللہ نے کہا احتساب اور شفافیت کو یقینی بنانا ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر بل سے متعلق درخواست گزار چیف جسٹس کو احتساب سے بالاتر بنانا چاہتے ہیں، مجھے اپنے لئے ایسی پاور زنہیں چاہئیں، عوام کے ٹیکس پر چلنے والی عدالت کیا میری مرضی پر چلے گی۔

انہوں نے کہا بعض قوانین مجھے پسند نہیں، اس کا مطلب یہ نہیں وہ غلط ہیں، قانون اچھا بنائیں یا نہیں، پارلیمنٹ کی بے توقیری نہیں کریں گے، اتنا بڑا حملہ ہوتا تو ہم سوموٹو لے چُکے ہوتے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایسی آزادی کا کیا کرنا جس سے ملک کی آزادی خطرے میں پڑ جائے۔قبل ازیں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ اجلاس منعقد ہوا۔اجلاس میں ہی اتفاق کیا گیا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعت براہ راست نشر کی جائے گی جس کے بعد سپریم کورٹ ، کورٹ روم نمبر ایک میں5 کیمرے لگا کر سماعت براہ راست دکھانے کا انتظام کیا گیا۔فل کورٹ اجلاس میں 4 نکاتی ایجنڈے کوزیربحث لایاگیا۔ایجنڈے میں سپریم کورٹ میں زیر التوامقدمات کی ترجیحی بنیادوں پر سماعت پر غور کیاگیا،عدالتی کارروائی کی لائیوسٹریمنگ اورمقدمات کی سماعت کوموثر بنانے کے لئے گائیڈلائنز پر تبادلہ خیال کیاگیا۔ جج صاحبان نے عدالتی کارروائی کی لائیو سٹریمنگ کے معاملات کا جائزہ لیا اور اس کی منظوری دی۔سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے درخواستوں پر سماعت ساڑھے 9 بجے مقرر کی گئی تھی تاہم مقررہ وقت گزرنے کے باوجود 10 بجے بھی بینچ نہ پہنچ سکا۔بعدمیں بتایاگیاکہ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں فل کورٹ اجلاس جاری ہے اور تاخیرکی وجہ براہ راست نشریات کیلئے ہونے والی فل کورٹ میٹنگ ہے۔بعدازاں سماعت کے لئے ساڑھے گیارہ بجے کاوقت مقررکیاگیا۔