فائل فوٹو
فائل فوٹو

ڈالر ذخیرہ کرنے والوں کے گھروں پر چھاپوں کی تیاری

عمران خان :
ڈالرز سمیت اربوں روپے کی غیر ملکی کرنسی ذخیرہ کرنے والوں کے گھروں پر حساس اداروں کے ساتھ چھاپوں کیلیے ایف آئی اے کی ملک بھر میں 25 خصوصی ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔ ان ذخیرہ اندوزوں میں شامل سابق بیورو کریٹس، سیاسی شخصیات، فرنٹ مین، رئیل اسٹیٹ سے منسلک افراد، سرکاری افسران اور کاروباری افراد کی لسٹیں بھی بنالی گئی ہیں۔ چھاپوں کا فیصلہ ان رپورٹس کی روشنی میں کیا گیا ہے جن کے مطابق اربوں ڈالرز گھروں میں ذخیرہ کرنے والے شہری اب بھی ڈالرز باہر نکالنے کو تیار نہیں۔ جس کی وجہ سے مارکیٹ میں موجود ڈالرز کی قدر ہر ممکن اقدامات کے باوجود ذرا سی نیچے آنے کے بعد پھر اوپر جانا شروع کردیتی ہے۔

’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق گزشتہ عرصہ میں ایکسچینج کمپنیوں اور نجی بینکوں سے ڈالرز خریدنے والے ہزاروں شہریوں کا ریکارڈ اسٹیٹ بینک کے فنانشنل مانیٹرنگ یونٹ سے حاصل کرلیا گیا ہے۔ اس مقصد کے لئے گزشتہ دنوں میں درجنوں ایکسچینج کمپنیوں اور نجی بینکوں کی سینکڑوں برانچوں اور فرنچائزز کو تفتیش میں شامل کیا گیا۔ طویل چھان بین کے بعد اس ریکارڈ میں سے سینکڑں ایسے شہریوں کا ڈیٹا ترجیحی بنیاد پر کارروائیوں کے لئے منتخب کرلیا گیا ہے۔ جنہوں نے گزشتہ کچھ عرصہ میں لاکھوں ڈالرز اور غیر ملکی کرنسی خرید کر اپنے پاس ذخیرہ کی ہے۔

’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ ایف آئی اے نے ملک بھر میں پھیلی ہوئی ایکسچینج کمپنیوں کی 50 سے زائد برانچوں سے ملنے والے ڈیٹا کی روشنی میں ذخیرہ اندوزوں کے گھروں پر کارروائیوں کے لئے انکوائریاں شروع کی ہیں۔ جس کے لئے ملک بھر میں ایف آئی اے کی 25 ٹیمیں کام کر رہی ہیں۔ یہ انکوائریاں اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ اور ایکسچینج ریگولیٹری ڈپارٹمنٹ کی جانب سے ایف آئی اے کو فراہم کردہ معلومات اور فہرست کی روشنی میں شروع کی گئی ہیں۔ جن میں نشاندہی کی گئی ہے کہ مذکورہ برانچوں سے گزشتہ کچھ عرصہ میں اربوں روپے مالیت میں ڈالرز کی یک دم خریداریاں شروع کی گئیں۔ جوکہ ایک غیر معمولی عمل تھا۔ اس وقت ان ایکسچینج کمپنیوں سے ڈالرز کی خریداری کا ریکارڈ حاصل کر کے ایف آئی اے کی ٹیمیں چھان بین کر رہی ہیں۔ جس میں ڈالرز خریدنے کے لئے کی جانے والی ادائیگیوں کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال بھی کی جا رہی ہے۔

سرکاری مالیاتی اداروں کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق ان کمپنیوں سے اور نجی بینکوں کی برانچوں کے درمیان صرف چند ماہ کے دوران اربوں روپے مالیت کی غیر ملکی کرنسی کا لین دین ہوا۔ جو کہ بالآخر مخصوص شہریوں کو منتقل ہو گیا۔ نجی بینکوں سے خریدے گئے امریکی ڈالرز، برطانوی پاونڈز، یورو، ریال سمیت دیگر کرنسیوں کے اعداد و شمار نجی بینکوں کے ڈیٹا سے حاصل کئے گئے۔ جبکہ شہریوں کو منتقل ہونے والے زر مبادلہ کا ڈیٹا ایکسچینج کمپنیوں سے لیا گیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کمپنیوں میں 18 ایسی ایکسچینج کمپنیاں ہیں۔ جو کراچی سے ہی کاروبار میں ملوث رہیں اور ان 18 کمپنیوں میں سے 5 ایسی کمپنیاں ہیں۔ جنہوں نے مختصر عرصہ میں 25 ارب روپے کے عوض صرف امریکی ڈالرز آگے منتقل کئے۔ جبکہ غیر ملکی کرنسی ہولڈنگ سے مخصوص کمپنیوں نے اربوں روپے کا غیر قانونی منافع کمالیا۔ ان ایکسچینج کمپنیوں اور حوالہ ایجنٹوں سے مخصوص شہریوں نے اپنے ملازمین، ان کے خاندان کے افراد، اہلیہ، بھائی، بہنوں کے ذاتی کھاتوں کو استعمال کر کے غیر ملکی کرنسی کی نجی بینکوں سے خریداری کی۔

اس حوالے سے جب مزید تحقیقات کی گئیں تو انکشاف ہوا کہ پوش علاقوں میں اس کے فوری بعد ان شہریوں کی جانب سے ایسے پلاٹوں کی قیمتوں کو کروڑوں میں فروخت ظاہر کیا گیا۔ جن کی مالیت لاکھوں روپے بنتی ہے اور اس کے لئے اسٹامپ پیپر، پلاٹوں کے جعلی کاغذات تیار کئے گئے اور ایک پلاٹ کو کئی ناموں سے فروخت کیا گیا۔ جبکہ جن کھاتوں سے کروڑوں روپے منتقل کئے گئے۔ ان کی مالی حیثیت بھی نہ ہونے کے برابر ہے اور وہ ماہانہ تنخواہ پر گزر بسر کر رہے ہیں۔ ان کے بینک کھاتوں میں اس ایک ٹرانزیکشن کے علاوہ کبھی ایک لاکھ روپے سے زائد کی مالی ٹرانزیکشن نہیں ہوئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس مالی ٹرانزیکشن کے عوض ان افراد کو فی ٹرانزیکشن پر دس ہزار روپے کا کمیشن دیا گیا۔

اس آپریشن کے حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ مکمل طور پر انٹیلی جنس بیسڈ ہوگا اور ٹارگٹڈ بنیاد پر ہوگا۔ جس میں ایکسچینج کمپنیز کی مدد سے ڈالر ذخیرہ کرنے والوں کے گھروں پر چھاپے مارے جائیں گے۔ جبکہ ملزمان کو قید کی سزائیں دی جائیں گی۔ ذرائع کے مطابق ڈالر برآمدگی کے لئے ایف آئی اے اور حساس ادارے نے اب مافیاز کے گھروں پر چھاپہ مارنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ایکسچینج کمپنیز سے حاصل معلومات کی مدد سے گھروں کی نشاندہی کی جائے گی۔ ایف آئی اے اور حساس ادارے گھروں پر ٹارگٹڈ چھاپہ مار کارروائی کریں گے۔

ذرائع کے بقول ملک بھر میں حوالہ ہنڈی اور منی لانڈرنگ میں ملوث ایکسچینج کمپنیوںکے خلاف ایف آئی اے کی جانب سے بنائے جانے والے زیادہ تر مقدمات میں ان کمپنیوں کے لئے کام کرنے والے ملازمین کو ہی نامزد کیا جاتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ رقوم ٹرانسفر کرنے والے رائیڈرز کے ساتھ منیجر سطح کے افسران کو نامزد کردیا جاتا ہے۔ تاہم کمپنیوں کے مالکان اور ڈائریکٹرز کو اکثر اوقات ریلیف مل جاتا ہے اور اسی نکتے کوایکسچینج کمپنیوں کے مالکان بنیاد بنا کر اسٹیٹ بینک کے ایکسچینج پالیسی ڈپارٹمنٹ سے اپنے لائسنس منسوخ ہونے سے بچا لیتے ہیں۔ ایکسچینج کمپنیوں کے خلاف مقدمات درج کرنے کے بعد تحقیقات میں کئی خامیاں ہونے اور عدم شواہد کی بنا پر کمپنیوں کو اس سنگین جرم میں ریلیف مل جاتا ہے۔ کئی ایکسچینج کمپنیوں کے خلاف درج مقدمات میں عدالتوں میں پیروی کے دوران ایف آئی اے افسران ان کے خلاف حوالہ ہنڈی کے ثبوت پیش نہیں کر سکے اور الزامات ثابت نہ ہونے کی وجہ سے ان کے کیس ختم ہوگئے۔