ارشاد کھوکھر:
کامران ٹیسوری کو گورنر سندھ کے منصب سے ہٹانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں آئندہ چند روز میں حتمی فیصلہ متوقع ہے۔ ان کی جگہ متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت نے ایم کیو ایم کے رہنما اور سابق ناظم (میئر) کراچی مصطفیٰ کمال کو گورنر سندھ بنانے کیلئے سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔ مذکورہ تبدیلی کا مقصد سندھ کے شہری علاقوں خصوصاً کراچی اور حیدرآباد میں متحدہ لندن گروپ کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنا اور سیاسی طور پر متحدہ کو سندھ کی دوسری بڑی جماعت بننے کا موقع فراہم کرکے 2002ء کی پوزیشن پر لانے کی کوشش ہے۔ ساتھ ہی سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف سیاسی جماعتوں کے اتحاد بنانے کی کوششوں کو بھی تقویت دینا ہے۔
آئندہ عام انتخابات کیلیے نئی صف بندی کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ جس میں خصوصاً گزشتہ پندرہ برس سے سندھ میں راج کرنے والی جماعت پیپلز پارٹی کی مخالف جماعتوں اور شخصیات پر مشتمل ایک نیا اتحاد قائم کرنے کیلیے سرگرمیاں جاری ہیں۔ جس میں اب نہ صرف جی ڈی اے بلکہ جے یو آئی (ف) بھی شامل ہے۔ تاہم اصل سیاسی جوڑ توڑ کرنے والے حلقوں میں یہ سوچ پائی جا رہی ہے کہ مذکورہ اتحاد کا اثر رسوخ صرف اندرون سندھ تک محدود ہوگا اور ضروری نہیں کہ یہ اتحاد آئندہ عام انتخابات میں سندھ کے اندر اتنی نشستیں حاصل کرلے کہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں آجائے۔
اس لیے کوشش کی جا رہی ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں خصوصاً کراچی، حیدرآباد، میرپور خاص، نواب شاہ، سکھر وغیرہ میں پیپلز پارٹی کی پرانی سیاسی حلیف قوت کو مضبوط کیا جائے۔ کیونکہ ماضی میں مذکورہ شہری علاقوں میں متحدہ قومی موومنٹ وہ واحد جماعت ہے۔ جو پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دیتی رہی ہے۔ 1988ء سے لے کر 2013ء کے عام انتخابات تک متحدہ پارلیمانی سیاست کے حوالے سے سندھ کی دوسری بڑی جماعت رہی ہے۔ لیکن 2018ء کے عام انتخابات میں اس سے وہ پوزیشن چھن گئی۔ جسے متحدہ دوبارہ حاصل کرنے کیلئے سرتوڑ کوشش کر رہی ہے۔
اب جو نئی صف بندی ہورہی ہے۔ اس میں متحدہ کی قیادت نے پیپلز پارٹی مخالف سندھ کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مسلم لیگ نون سے بھی پرانے مراسم بحال کرنے کیلئے سرگرمیاں ابھی سے تیز کردی ہیں۔ اس کیلئے متحدہ کی قیادت نے کامران ٹیسوری کی جگہ مصطفیٰ کمال کو گورنر سندھ بنانے کیلئے سرگرمیاں تیز کردی ہیں۔
جہاں تک کامران ٹیسوری کے گورنر سندھ بننے کی بات ہے تو بظاہر ان کی تقرری بھی متحدہ کے کھاتے میں ہی ہوئی تھی۔ لیکن سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے ہر شخص کو معلوم ہے کہ کامران ٹیسوری اصل میں اسٹیبلشمنٹ کی چوائس تھے۔ بظاہر کامران ٹیسوری بھی اپنے آپ کو متحدہ سے جڑے ہوئے ہونے کی باتیں کرتے رہے ہیں۔ تاہم متحدہ کے کارکن اور ہمدرد ان سے خوش نہیں۔ اس لئے متحدہ کی قیادت کی کوشش ہے کہ کسی ایسے شخص کو گورنر سندھ بنایا جائے۔ جس کی پہچان متحدہ قومی موومنٹ سے جڑی ہو۔ تاکہ عوام میں براہ راست یہ تاثر جائے کہ اب اسٹیبلشٹمنٹ متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس کے لئے 2005ء سے 2009ء تک کراچی کی شہری حکومت کے ناظم (میئر) رہنے والے مصطفیٰ کمال کے نام پر غور کیا جارہا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مقتدر حلقوں میں یہ سوچ بھی کارفرما ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ لندن گروپ کا مکمل طور پر صفایا کرنے کیلئے متحدہ پاکستان کو آگے لانے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک مصطفیٰ کمال کی بات ہے تو وہ پہلے بھی اسٹیبلشمنٹ کے قریب تھے۔ جنہوں نے مارچ 2016ء میں متحدہ سے علیحدگی اختیار کرکے پاک سر زمین پارٹی کے نام سے اپنی الگ جماعت بنائی تھی۔ لیکن جس طرح چہیتے بچوں کے نخرے بھی بڑے ہوتے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے اس وقت کئی معاملات میں بڑے نخرے کیے۔ جس کے باعث ان کی جماعت کو انتخابات میں کوئی کامیابی حاصل نہ ہوسکی تھی۔ لیکن وقت کے ساتھ مصطفیٰ کمال نے بھی یہ سیکھ لیا ہے کہ اب اسٹیبشلمنٹ کے ساتھ کیسے چلنا ہے۔
متحدہ کی سیاست کو دیکھا جائے تو اسے عروج ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے دور میں ملا۔ 2002ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے سندھ میں نمبر ون جماعت ہونے کی اپنی پوزیشن برقرار رکھی۔ لیکن پھر بھی اسے سندھ میں حکمرانی کرنے کا موقع نہ مل سکا تھا۔ جس میں اہم کردار متحدہ قومی موومنٹ کا تھا۔ ماضی کو دیکھا جائے تو سندھ اسمبلی کی 168 نشستوں میں سے متحدہ قومی موومنٹ 50 سے زائد نشستیں 2013ء تک حاصل کرتی رہی تھی۔ جبکہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے سائے میں بنائی گئی مسلم لیگ ق کو بھی سندھ میں بڑی کامیابی نہیں مل سکی تھی۔
اس وقت سندھ میں پیپلز پارٹی مخالف حکومت بنانے کیلئے پیپلز پارٹی کے اندر پیٹریاٹ گروپ بنایا گیا۔ جس کے بعد جاکر وزیراعلیٰ سندھ کے انتخاب کیلئے مطلوبہ 85 ووٹوں کا ہندسہ پورا کیا گیا۔ اس طرح سندھ میں پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دینے یا پیپلز پارٹی مخالف حکومت کے قیام کیلئے متحدہ کو پرانی پوزیشن پر لانے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔
اگر کامران ٹیسوری کی جگہ مصطفیٰ کمال یا متحدہ کے کسی اور تگڑے لیڈر کو گورنر سندھ تعینات کیا جائے گا تو پیپلز پارٹی مخالف دیگر جماعتوں کو بھی اس پر اعتراضات اس لئے نہیں ہوں گے۔ کیونکہ ان کی بھی یہی خواہش ہے کہ مل کر اس مرتبہ پیپلز پارٹی کا راستہ روکا جائے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کامران ٹیسوری متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت کو یہ باور کرانے کی کوشش ضرور کر رہے ہیں کہ وہ ان کی سیاست کیلئے بہتر ثابت ہوئے ہیں اور آگے بھی بہتر ثابت ہوں گے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ متحدہ کی قیادت درمیانی سوچ رکھنے والے کسی شخص کے بجائے ایسے شخص کو گورنر بنوانا چاہتی ہے۔ جس کی مکمل پہچان متحدہ سے جڑی ہوئی ہو۔ تاہم اس سلسلے میں کوئی حتمی بات نہیں کی جاسکتی۔ کیونکہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر ہیں۔ جو آخر میں بازی کو پلٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔