احمد خلیل جازم :
سابق وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہین الیکشن کمیشن کے خلاف درخواست مسترد کردی گئی۔ فواد چوہدری نے اس درخواست میں کہا تھا کہ دو فورم پر ان کے خلاف ایک جیسی کارروائی نہیں ہو سکتی۔ اسے روکا جائے۔ کیونکہ توہین الیکشن کمیشن کے ساتھ ساتھ ان پر اسی حوالے سے فوجداری مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔ ایک ہی مقدمے کو دو فورمز پر نہیں چلایا جا سکتا۔
یہ بھی یاد رہے کہ گزشتہ برس جج زیبا چوہدری کے خلاف نازیبا کلمات پر ان کے خلاف بھی مقامی عدالت میں توہین عدالت کا کیس ہوا تھا۔ اب ایک جانب تو الیکشن کمیشن نے توہین الیکشن کمیشن کا شوکاز نوٹس جاری کرکے کارروائی شروع کر رکھی ہے۔ دوسری جانب ان کے خلاف اسی کیس پر فوجداری مقدمہ بھی سیشن کورٹ میں چل رہا ہے۔ چنانچہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں فواد چوہدری نے درخواست دی تھی۔ جس پر ہائی کورٹ نے ان کی درخواست مسترد کردیا۔ اس فیصلے کے بعد دونوں فورمز پر کارروائی جاری رکھنے کا عندیہ مل گیا ہے۔ ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ فواد چوہدری کے خلاف دونوں فورمز پر کیس الگ الگ چل سکتا ہے۔ فواد چوہدری کو اس کیس میں تین برس سزا ہو سکتی ہے۔
اس حوالے سے سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’الیکشن کمیشن ایک بااختیار ادارہ ہے۔ اس کے پاس آرٹیکل 204 کے تحت وہی اختیارات ہیں۔ جو کسی بھی ہائیکورٹ کو حاصل ہوتے ہیں۔ الیکشن کمیشن توہین کے زمرے میں فواد چوہدری پر الگ سے کارروائی کرسکتا ہے۔ اب اس کیلئے چیئرمین اجلاس کے بعد فیصلہ کر سکتے ہیں کہ انہیں ایک برس کی سزا ہوسکتی ہے یا پھر تین برس سزا تجویز کرتے ہیں۔ البتہ ابھی فواد چوہدری کے پاس سپریم کورٹ میں جانے کا آپشن موجود ہے۔
سپریم کورٹ اس درخواست کو سنے گی یا نہیں۔ وہ اس کی صوابدید ہے‘‘۔ ایک سوال پر کنور دلشاد کا کہنا تھا ’’الیکشن ایکٹ سیکشن 10 کے تحت الیکشن کمیشن، توہین کمیشن میں تین برس تک سزا دینے کا مجاز ہے۔ البتہ جس طرح ہائیکورٹ میں درخواست دی جا چکی ہے۔ تو دیکھنا یہ ہے کہ آیا وہ اس پر سپریم کورٹ میں درخواست دیتے یا نہیں۔ جو ان کا قانونی حق ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے آئین کے مطابق درخواست مسترد کی ہے‘‘۔
معروف قانون دان اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل حشمت حبیب کا کہنا ہے کہ ’’الیکشن کمیشن کے پاس توہین عدالت پر سزا دینے کا اختیار موجود ہے۔ الیکشن کمیشن کے سامنے جو ایشو ہوتا ہے۔ اس کے مطابق ہی وہ قانونی کارروائی کا اختیار رکھتا ہے۔ دوسری جانب اگر فوجداری مقدمہ ہے تو وہ الگ چلے گا۔ وہ تو کرمنل آفینس میں آتا ہے۔ اس کی کارروائی تو الگ سے ہوگی۔ فواد چوہدری اب سپریم کورٹ جاسکتے ہیں۔ لیکن یہ تو سپریم کورٹ طے کرے گی کہ ان کی درخواست قابل سماعت ہے یا نہیں۔
اگر قابل سماعت ہوئی تو اسے سنے گی ورنہ نہیں سنے گی۔ یہاں فواد چوہدری کی درخواست ہی درست نہیں تھی کہ دو فورمز پر ایک جیسا کیس نہیں چلایا جاسکتا۔ آپ یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ توہین عدالت کی کارروائی ہوتی ہے تو یہ آپ کے Fundamental Rights کے خلاف ہے۔ ایسے نہیں ہوتا۔ توہین عدالت جرم ہے اور اس کی سزا ہے۔ اسی طرح فوجداری کیس الگ سے کرمنل ایکٹ کے تحت چلے گا۔ ایک شخص قتل کرتا ہے، اسے سزا ہوتی ہے تو وہ اس سزا کے خلاف یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ اس کے Fundamental Rights کے خلاف ہے اور اسے سزا نہیں ہوسکتی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے قانون کے مطابق فیصلہ دیا ہے‘‘۔
سینئر ایڈووکیٹ ہائی کورٹ خرم شہزاد نے کہا کہ ’’اسلام آباد ہائیکورٹ نے درست فیصلہ دیا ہے۔ کرمنل پروسیڈنگ اور توہین عدالت کی کارروائی دونوں الگ الگ کیس ہیں۔ دونوں کا الگ پروسیجر ہے۔ اگر کہیں کرمنل افینس ہوتا ہے تواس کے اپنے افیکٹس ہیں۔ الیکشن کمیشن کا اپنا لا ہے اور انہوں نے اس کے مطابق چلنا ہے۔ وہ بااختیار ادارہ ہے۔ اس کی الگ ریمڈی ہے۔ کرمنل کیس میں الگ انویسٹی گیشن ہوگی۔ چالان جمع ہوگا۔ تفتیش ہوگی۔ دلائل ہوں گے‘‘۔