علی جبران :
نواز شریف سے حال ہی میں ملاقات کرنے والے بیرسٹر امجد ملک کا کہنا ہے کہ انہیں بظاہر ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ سابق وزیراعظم اکیس اکتوبر کو اپنی پاکستان واپسی کا شیڈول تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کے بقول نواز شریف کی واپسی سے متعلق حتمی مشاورت ہوچکی۔ پاکستان پہنچنے سے پہلے سابق وزیراعظم کی حفاظتی ضمانت کرالی جائے گی۔ اگر وہ براہ راست لاہور اترتے ہیں تو پھر راہداری ضمانت کرانا ہوگی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شہباز شریف کی پاکستان سے فوری لندن واپسی کے حوالے سے جو قیاس آرائیاں کی گئیں۔ وہ سب بے بنیاد ہیں۔
برطانیہ کے معروف ماہر قانون اور نواز شریف کے لیگل ایڈوائزر بیرسٹر امجد ملک نے گزشتہ جمعہ کو لندن میں نواز شریف سے ملاقات کی۔ اس موقع پر شہباز شریف، مریم نواز اور اسحاق ڈار بھی موجود تھے۔ اس ملاقات کے بارے میں انہوں نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ دوران گفتگو کوئی ایک بھی ایسی بات نہیں ہوئی جس سے لگے کہ نواز شریف واپسی کے پروگرام میں کسی تبدیلی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اب جبکہ انہوں نے خود اور ان کے بھائی شہباز شریف نے جو پارٹی کے صدر بھی ہیں، واپسی کی تاریخ کنفرم کردی ہے تو کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی کہ وہ مزید لندن میں قیام کریں۔
ان کی پاکستان واپسی کی تیاریاں زوروشور سے جاری ہیں۔ اس حوالے سے جہاں پاکستان میں پارٹی عہدیداران کی ڈیوٹیاں لگ رہی ہیں۔ وہیں اوورسیز ذمہ داران کی فہرستیں بھی ترتیب دی جا رہی ہیں۔ کیونکہ برطانیہ سمیت دیگر ممالک سے بھی پارٹی کے لوگ نواز شریف کے ساتھ پاکستان جائیں گے۔ پاکستان واپسی سے متعلق نواز شریف کو درپیش قانونی معاملات کے بارے میں بیرسٹر امجد ملک کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں نواز شریف کی اپنی قانونی ٹیم سے تفصیلی مشاورت ہو چکی ہے۔ اور ان کی واپسی میں بظاہر کوئی قانونی رکاوٹ نہیں۔
نواز شریف اگر اسلام آباد کے بجائے لاہور آتے ہیں تو پہلے انہیں راہداری ضمانت لینی ہوگی۔ یہ راہداری ضمانت نواز شریف کے خاندان کا کوئی بھی فرد یا پارٹی کا کوئی عہدیدار لاہور ہائیکورٹ سے لے سکتا ہے۔ تاکہ سابق وزیراعظم اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپنی سزا کے خلاف اپیل جوائن کر سکیں۔ یعنی یہ راہداری ضمانت انہیں اتنا وقت فراہم کرے گی کہ وہ اسلام آباد جاکر وہاں کی ہائیکورٹ کے سامنے سرنڈر کر دیں اور درخواست دائر کریں کہ انہیں اس وقت تک ضمانت دی جائے جب تک سزا کے خلاف ان کی اپیل کا فیصلہ نہیں ہوجاتا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ سے ضمانت ملنے کی صورت میں جیل سے باہر رہ کر نواز شریف اپنا مقدمہ لڑسکتے ہیں۔
بیرسٹر امجد ملک کے بقول اس بات کا قوی امکان ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے نواز شریف کو ضمانت مل جائے گی۔ تاہم اگر اپیل مسترد بھی ہو جاتی ہے، جس کا امکان کم ہے تو وہ سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتے ہیں۔ اس سوال پر کہ دوسرا مؤقف رکھنے والے وکلا کا استدلال ہے کہ ضمانت ملزم کو مل سکتی ہے۔ جیسا کہ اسحا ق ڈار نے پاکستان آنے سے قبل حاصل کرلی تھی۔ نواز شریف چونکہ سزایافتہ ہیں۔ اس لئے انہیں پہلے جیل جانا پڑے گا کیونکہ کسی مجرم کو ضمانت دینے کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
بیرسٹر امجد ملک کا کہنا تھا ’’عدالتی نظیر تو ایسی بھی کوئی نہیں ملتی کہ ایک سزایافتہ شخص کو دوران قید جیل سے نکال کر علاج کے لئے بیرون ملک بھیج دیا جائے۔ یہ نظیر پی ٹی آئی حکومت کی درخواست پر نواز شریف کو لندن جانے کی اجازت دے کر خود سپریم کورٹ نے بنائی تھی۔ دراصل غیر معمولی حالات میں قانون میں بہت سی گنجائشیں نکال لی جاتی ہیں۔ پاکستان واپسی پر بھی نواز شریف کو غیر معمولی حالات کے تناظر میں ڈیل کرنا پڑے گا جس کے تحت انہیں ضمانت دی جائے گی‘‘۔
بیرسٹر امجد ملک کے مطابق نواز شریف کو لاہور پہنچنتے ہی صرف اس صورت میں گرفتار کیا جاسکتا ہے اگر وہ راہداری ضمانت نہیں لیتے۔ راہداری ضمانت لے لی جاتی ہے تو پھر یہ خطرہ نہیں رہے گا۔ اگلا مرحلہ اسلام آباد ہائیکورٹ سے ضمانت لینے کا ہوگا۔ اگر اسلام آباد ہائیکورٹ فوری طور پر ان کی درخواست ضمانت منظور نہیں کرتی تو پھر انہیں اس وقت تک جیل میں رہنا ہوگا جب تک ضمانت نہیں ہوجاتی۔
ایسے میں نگراں حکومت اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کی رہائش گاہ جاتی امرا کو ان کے لئے سب جیل قرار دے سکتی ہے۔ لیکن یہ امکان کم ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ سے نواز شریف کو ضمانت نہ ملے۔ ایک اور سوال پر بیرسٹر امجد ملک کا کہنا تھا کہ جج ارشد ملک کے ویڈیو اعترافات اور جسٹس شوکت صدیقی کے حلف نامے کے بعد پچانوے فیصد امکانات ہیں کہ ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں نواز شریف کو سنائی جانی والی سزائیں کالعدم قرار دے دی جائیں۔ ان کے خیال میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے پاس دو ہی راستے ہیں۔ ان سزاؤں کو ختم کردے یا کیسز کو دوبارہ سننے کے لیے نیب کو بھجوا دے۔
شہباز شریف کی پاکستان آمدکے اڑتالیس گھنٹوں بعد لندن واپسی سے متعلق چلنے والی مختلف خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے بیرسٹر امجد ملک کا کہنا تھا ’’شہباز شریف اور مریم نواز کی لندن آمد کا مقصد نواز شریف کی واپسی کے انتظامات پر حتمی مشاورت کرنا تھا۔ جس میں لاجسٹک معاملات شامل ہیں۔ مثلاً ایئرپورٹ سے مینار پاکستان تک ریلی کی شکل میں جانا ہے یا بذریعہ ہیلی کاپٹر وہاں اترنا ہے۔ دراصل سیکورٹی پر بہت توجہ دی جارہی ہے‘‘۔ اس کا سبب بیان کرتے ہوئے بیرسٹر امجد ملک کا کہنا تھا ’’عام طور پر جب کوئی سیاسی لیڈر ایک طویل عرصے بعد واپسی کرتا ہے تو سیکورٹی خطرات کو بھی مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔ اس ملک نے سانحہ کارساز اور لیاقت باغ جیسے سانحات دیکھ رکھے ہیں‘‘۔
یاد رہے کہ شہباز شریف کی فوری لندن روانگی کو لے کر روایتی اور سوشل میڈیا پر بہت سے خبریں گرم تھیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ نواز شریف نے حال ہی میں جو سخت بیان دیا ہے۔ اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر کوئی خاص پیغام لے کر شہباز شریف لندن روانہ ہوئے تھے۔ بعض خبروں میں کہا گیا کہ شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف کو پاکستان واپسی کا پروگرام ملتوی کرنے کا مشورہ دینے لندن گئے۔