سید حسن شاہ :
سانحہ بلدیہ فیکٹری جیسے واقعات کی روک تھام کیلئے کراچی کی 36 ہزار فیکٹریوں کے معائنے کا سندھ حکومت کو حکم دیدیا گیا۔ فیکٹریوں میں حفاظتی انتظامات اور لیبر قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے پر فیکٹری کو بند کرنے اور مالکان کیخلاف قانونی کارروائی عمل میں لانے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ سندھ ہائیکورٹ نے ہدایت دی ہے کہ فیکٹریوں میں قانون کے مطابق انتظامات مکمل ہونے پر سیکریٹری محکمہ لیبر کے دستخط سے تحریری سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے گا۔ اگر مذکورہ فیکٹری میں کوئی واقعہ پیش آتا ہے۔ جس کے نتیجے میں جانی نقصان ہوتا ہے تو ذمہ داری ان پر ہوگی۔
واضح رہے کہ سندھ ہائیکورٹ نے صوبائی حکومت کو کراچی کی تمام فیکٹریوں میں صحت و حفاظتی آلات کی موجودگی اور ہنگامی صورت میں اخراج کے اقدامات کا معائنہ کرنے کے احکامات دیئے تھے۔ جس پر عملدرآمد سے متعلق سماعت ہائیکورٹ کے جسٹس محمد کریم خان آغا کی سربراہی میں دو رکنی بنچ کے روبرو ہوئی۔ جہاں چیف سیکریٹری سندھ سمیت متعلقہ حکام پیش ہوئے۔
چیف سیکریٹری سندھ نے مؤقف اختیار کیا کہ سیکریٹری محنت نے بتایا ہے کہ کراچی میں 4 ہزار فیکٹریاں رجسٹرڈ اور کام کر رہی ہیں۔ تاہم وہ اس تعداد سے مطمئن نہیں۔ فیکٹریوں کی کم تعداد سامنے آنے پر انہوں نے متعلقہ محکمے کو، کے الیکٹرک سے رابطہ کرکے یہ معلوم کرنے کو کہا کہ معلوم کیا جائے کہ اس نے کراچی کی کتنی فیکٹریوں کو صنعتی کنکشن دیئے ہیں۔
کے الیکٹرک کی رپورٹ کو ریکارڈ پر لایا گیا۔ جس سے معلوم ہوا کہ کراچی میں مزید 32 ہزار فیکٹریاں ہیں۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ تمام فیکٹریوں کو رجسٹرڈ ہونے کی ضرورت ہے یا ان میں صحت و حفاظت اور دیگر متعلقہ اقدامات قانون کے تحت موجود ہیں۔ چیف سیکریٹری سندھ نے عدالت کو بتایا کہ فیکٹری ورکز کی حفاظت اور فلاح و بہبود سے متعلق سیکریٹری لیبر، سیکریٹری داخلہ اور سیکریٹری سول ڈیفنس پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ جو فیکٹریوں میں حفاظتی اقدامات سے متعلق معاملات کا جائزہ لے گی اور آئین کے مطابق ورکرز کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنائے گی۔
سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے میں احکامات دیئے گئے ہیں کہ پہلے مرحلے میں محکمہ لیبر کی جانب سے ظاہر کردہ 4 ہزار فیکٹریوں کا انفرادی طور پر سینئر افسران کے ذریعے معائنہ کیا جائے۔ جو یہ چیک کریں گے کہ آیا متعلقہ فیکٹری میں قوانین اور ضابطوں کے مطابق آگ بجھانے کے آلات، ہنگامی صورت میں اخراج کے اقدامات، صحت و حطاظتی آلات موجود ہیں یا نہیں۔ اس کے بعد اگر متعلقہ فیکٹری میں قانون کے مطابق تمام انتظامات و اقدامات پائے جاتے ہیں تو سیکریٹری لیبر کی طرف سے فیکٹری کو تحریری طور پر ایک سرٹیفکیٹ دیا جائے گا۔ اور اگر مذکورہ فیکٹری میں کوئی بھی واقعہ پیش آتا ہے۔ جس کے نتیجے میں جانی نقصان ہوتا ہے تو اس کی ذمہ داری ان پر ہوگی۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہر سال فیکٹری کا معائنہ کیا جائے گا اور سرٹیفکیٹ کی تجدید کی جائے گی۔
اگر فیکٹریوں میں خامیوں کی وجہ سے کوئی سرٹیفکیشن ممکن نہ ہو تو ان خامیوں کی نشاندہی فیکٹری کے مالکان کو کی جائے گی اور مالکان کو اپنے خرچے پر وہ تمام خامیاں دور کرنے کی ہدایت بھی دی جائے گی۔ اس کے بعد بھی مقررہ مدت میں مالکان فیکٹری میں موجود خامیاں دور کرنے میں ناکام رہے تو محکمہ لیبر ان فیکٹری مالکان کے خلاف قانون کے تحت کارروائی کرے گا اور ان فیکٹریوں کو بند کر دیا جائے گا۔
عدالتی فیصلے کے مطابق پہلے 4 ہزار فیکٹریوں کے معائنہ اور تصدیق کے بعد محکمہ لیبر کی جانب سے دیگر 32 ہزار فیکٹریوں کا معائنہ عمل انجام دیا جائے گا۔ عدالت نے ہدایت دی ہے کہ آئندہ سماعت پر سیکریٹری محکمہ لیبر آئندہ 4 ہزار فیکٹریوں کی فہرست اور آئندہ سماعت تک کتنی فیکٹریوں کو سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا، اس کی رپورٹ جمع کرائیں۔ عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ توقع ہے اس سلسلے میں معقول پیش رفت ہو گی۔ کیونکہ فیکٹریاں کراچی میں ہیں اور ان میں سے اکثر سائٹ ایریا میں ہیں۔ جو زیادہ دور نہیں۔
سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ افسوسناک صورتحال ہے کہ کراچی کی کئی فیکٹریوں میں فائر فائٹنگ آلات نہیں۔ فیکٹریاں منافع کما رہی ہیں۔ مگر ملازمین محفوظ نہیں۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ فیکٹریوں کا جائزہ لے اور ملازمین کو تحفظ فراہم کرے۔ امید ہے سندھ حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے لے گی۔ عدالت نے فیکٹریوں میں حفاظتی انتظامات اور لیبر قوانین پر عملدرآمد سے متعلق رپورٹ طلب کرلی ہے اور کیس کی مزید سماعت 23 اکتوبر تک ملتوی کردی ۔