نون لیگ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کا تاثر گہرا ہونے لگا

امت رپورٹ :
نون لیگ کی اقتدار میں واپسی کا تاثر گہرا ہوتا جارہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ نون لیگ کے لئے موجودہ سسٹم میں گنجائش کے اشارے ملنا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ملک کی بڑی چھوٹی پارٹیوں کا جھکاؤ واضح طور پر نون لیگ کی طرف ہے۔ ان میں سے کچھ نون لیگ سے اتحاد کرنے جارہی ہیں اور بعض الیکشن میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں گی۔ ایسے میں پیپلز پارٹی خود کو تنہا محسوس کررہی ہے جو کل تک بلاول بھٹو زرداری کو اگلا وزیراعظم دیکھنے کی خواہش مند تھی۔

پنجاب میں نون لیگ کسی سیاسی پارٹی سے اتحاد کے بغیر الیکشن میں اترنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ لیگی ذرائع کے مطابق پارٹی قیادت سمجھتی ہے کہ آئندہ انتخابات میں اسے صوبے میں اپنی سب سے بڑی حریف تحریک انصاف کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ یوں اس کے لئے میدان صاف ہوگا۔

لیگی قیادت کے خیال میں اگر پی ٹی آئی پر پابندی نہیں بھی لگائی جاتی تو کم از کم عمران خان کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ملے گی۔ ایسے میں نون لیگ کے لئے ٹوٹی پھوٹی تحریک انصاف خطرہ نہیں بن سکتی۔ جبکہ تحریک انصاف کے بطن سے جنم لینے والی استحکام پاکستان پارٹی کا زیادہ زور جنوبی پنجاب میں ہوگا کہ اس میں شامل ہونے والے الیکٹ ایبلز کی اکثریت کا تعلق وہیں سے ہے۔

لیگی ذرائع کے مطابق الیکشن سے پہلے استحکام پاکستان پارٹی سے شاید انتخابی اتحاد نہ ہو، لیکن سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوسکتی ہے اور استحکام پاکستان پارٹی اگر قابل ذکر نشستیں لے لیتی ہے تو حکومت سازی کے لئے اس سے اتحاد خارج از امکان نہیں ہوگا۔ یاد رہے یہ بات عام ہے کہ استحکام پاکستان پارٹی، نواز شریف کی آشیر باد سے بنی تھی۔

سیاسی پارٹیاں اور الیکٹ ایبلز ہوا کا رخ دیکھ کر اپنی وفاداریاں تبدیل کرتے ہیں، اسی کا نام پاور پالیٹکس ہے۔ دوہزار اٹھارہ کے الیکشن سے پہلے جو ہوا تحریک انصاف کے لئے چل رہی تھی۔ اب نون لیگ کے لئے چل رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں اتحادی بن کر حکومت میں بقدر جثہ اپنا حصہ وصول کرنے والی زیادہ تر پارٹیوں کا رخ نون لیگ کی طرف دکھائی دیتا ہے۔

ماضی میں پی ٹی آئی حکومت کی اتحادی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کی قربتیں اب نون لیگ سے بڑھ رہی ہیں۔ نگراں حکومت بننے سے پہلے یہ قربت اتنی بڑھ گئی تھی کہ ’باپ‘ کے نون لیگ میں متوقع انضمام کی خبریں تک چل گئی تھیں۔ تب وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ آج کے نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ سمیت ’باپ‘ کے کئی رہنماؤں نے ملاقات کی تھی۔

جبکہ آج کے نگراں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا تھا کہ نون لیگ، بلوچستان میں بڑی سیاسی قوت بن سکتی ہے۔ جولائی کے آخر میں وزیراعظم شہباز شریف سے ہونے والی اس خفیہ ملاقات میں انوارلحق کاکڑ اور سرفراز بگٹی کے علاوہ بلوچستان عوامی پارٹی کے سردار مسعود لونی، حاجی محمد خان لہڑی، طور اتماتخیل ، نواب چنگیز مری، عاصم گیلو، میر عبدالغفورلہڑی، میر دوستین ڈومکی، میر طارق مسوری، میرشعیب نوشیروانی، خرم فتح، اسد خان بلیدی، علی گوہر، خان شیر، جعفرکریم بھنگر اور دیگر شامل تھے۔

اگرچہ نون لیگ میں انضمام یا اس سے اتحاد کے معاملے پر ’باپ‘ میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ تاہم ذرائع کے بقول پارٹی کے بیشتر رہنما نون لیگ کے ساتھ جانا چاہتے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں بھی نون لیگ کو جے یو آئی (ف) کی شکل میں ایک مضبوط اتحادی دستیاب ہے۔ دونوں پارٹیوں کے مابین سیٹ ایڈجسٹمنٹ خارج از امکان نہیں۔ جبکہ الیکشن کے بعد جے یو آئی (ف) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا نون لیگ سے اتحاد تقریباً یقینی ہے۔

ایک اہم پی ڈی ایم رہنما کے مطابق پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تشکیل دیا جانے والا نورکنی الائنس اسی لئے اب تک برقرار رکھا گیا ہے کہ اسے الیکشن اور اس کے بعد بھی استعمال کیا جاسکے۔ خیبر پختونخوا کی ہزارہ بیلٹ میں نون لیگ کا خاصا ووٹ بینک ہے۔ تاہم صوبے کے دیگر اضلاع میں اسے جے یو آئی اور اے این پی کی ضرورت پڑے گی۔ پرویز خٹک کی قیادت میں بننے والی پارٹی اگر قابل ذکر ووٹ لے لیتی ہے تو وہ بھی اس ممکنہ اتحاد کا حصہ بن سکتی ہے۔ فی الحال یہ خبریں ہیں کہ پرویز خٹک کے ساتھ جانے والے رہنماؤں میں سے کئی نون لیگ سے بیک ڈور رابطے کر رہے ہیں ۔

سندھ کی سیاست میں پچھلی چار دہائیوں سے سرگرم ایک سینئر سیاستداں جو اب گرینڈ ڈیموکر ٹیک الائنس (جی ڈی اے ) کا حصہ ہیں، کہتے ہیں کہ سب کو دکھائی دے رہا ہے کہ نون لیگ مرکز اور پنجاب میں حکومت بنا نے جارہی ہے۔ چنانچہ ماضی میں جو پی ٹی آئی کی اتحادی پارٹیاں تھیں، اب وہ نون لیگ سے اتحاد بنانا چاہتی ہیں۔

واضح رہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ)، ایم کیو ایم پاکستان اور جی ڈی اے ، پی ٹی آئی حکومت کا حصہ تھے اور انہوں نے وفاقی وزارتیں بھی لے رکھی تھیں۔ سینئر سیاستداں کے بقول اگرچہ نون لیگ نے کبھی سندھ میں دلچسپی نہیں لی اور یہ صوبہ پیپلز پارٹی کے حوالے کئے رکھا۔ اب بھی سندھ سے نون لیگ کی عدم دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں پارٹی کے معاملات پنجاب میں بیٹھے سابق صوبائی وزیر تعلیم رانا مشہود چلا رہے ہیں۔

یہ ذمے داری انہیں پارٹی صدر شہباز شریف نے سونپ رکھی ہے۔ لیکن اس بار جی ڈی اے ، نون لیگ کو اتحادی بنا کر سندھ کی سیاست میں متحرک کرنا چاہتا ہے۔ اس سے صوبے میں پیپلز پارٹی مخالف اتحاد مضبوط ہوگا، جس میں ایم کیو ایم پاکستان اور جے یو آئی پہلے ہی شامل ہو چکی ہیں۔ سیاستداں کے بقول اگر نون لیگ کو مرکز ملتا ہے تو ظاہر ہے کہ جی ڈی اے اورایم کیو ایم بھی اس مخلوط وفاقی حکومت میں شامل ہوں گی۔