سید حسن شاہ :
نقیب اللہ قتل کیس کے مرکزی ملزمان سابق ایس ایچ او شاہ لطیف، امان اللہ مروت سمیت 7 ملزمان کے بچ نکلنے کی امید دم توڑنے لگی۔ سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت 18 پولیس افسران و اہلکاروں کی بریت کے بعد 5 سال تک اشتہاری رہنے والے ایس ایچ او سمیت 7 ملزمان نے رہائی کی امید میں سرنڈر کیا تھا۔ امان اللہ مروت سمیت 6 ملزمان کی حفاظتی ضمانتیں خارج کرکے جیل بھیجا جاچکا۔
راؤ انوار نے بھی عدالت کو دیے گئے بیان میں پولیس مقابلے کا ملبہ امان اللہ مروت پر ڈال دیا تھا۔ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سابق ایس ایچ او امان اللہ مروت سمیت 7 ملزمان کے خلاف تفتیشی افسر سے چالان طلب کرلیا ہے۔ چالان جمع ہونے کے بعد ان پر فرد جرم عائد کیے جانے کا امکان ہے۔
انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کی جانب سے جنوری 2023ء میں نقیب اللہ قتل کیس کا فیصلہ سنایا گیا تھا۔ جس میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت 18 پولیس افسران و اہلکاروں کو بری کر دیا گیا تھا۔ جبکہ 7 ملزمان سابق ایس ایچ او سب انسپکٹر امان اللہ مروت، سب انسپکٹر شیخ محمد شعیب عرف شعیب شوٹر، اے ایس آئی گدا حسین، ہیڈ کانسٹیبل محسن عباس، ہیڈ کانسٹیبل صداقت حسین شاہ، پولیس اہلکار راجہ شمس مختار اور رانا ریاض احمد مفرور تھے۔ ان ملزمان کی عدم گرفتاری پر متعلقہ عدالت کے حکم پر ساتوں ملزمان کو اشتہاری قرار دے دیا گیا تھا۔
ذرائع کے بقول نقیب اللہ قتل کیس میں پراسیکیوشن راؤ انوار سمیت 18 ملزمان پر جرم ثابت کرنے میں ناکام رہی تھی۔ اس بات کو مدنظر رکھ کر اشتہاری ایس ایچ او سمیت 7 ملزمان نے مئی 2023ء میں رہائی کی امید میں خود کو سرنڈر کر دیا تھا۔ سرنڈر کرنے سے قبل ملزمان نے سندھ ہائی کورٹ سے حفاظتی ضمانت حاصل کی اور پھر انسداد دہشت گردی کی منتظم عدالت میں پیش ہوئے۔ جس نے ان ملزمان کا کیس خصوصی عدالت کو منتقل کیا۔ جہاں ملزمان کی ضمانتوں کی توثیق ہونا باقی تھی۔ عدالت نے سابق ایس ایچ او امان اللہ سمیت 6 پولیس افسران و اہلکاروں کی عبوری ضمانت خارج کرکے جیل بھیجنے کا حکم دیا تھا۔ جس پر پولیس نے عمل کیا۔ اس وقت ایک ملزم سب انسپکٹر شیخ محمد شعیب عرف شعیب شوٹر ضمانت پر آزاد ہے۔
نقیب اللہ قتل کیس میں گرفتار سابق ایس ایچ او سمیت دیگر ملزمان کے جلد بچ نکلنے کی امیدیں دم توڑنے لگی ہیں۔ پراسیکیوشن کے پاس ان ملزمان کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ یہ ملزمان جعلی قرار دیئے گئے پولیس مقابلے کے دوران موقع پر موجود تھے۔ جبکہ سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار بھی عدالت کو دیئے گئے اپنے بیان میں امان اللہ مروت پر پولیس مقابلے کا ملبہ ڈال چکے ہیں۔ جو ریکارڈ پر موجود ہے۔
راؤ انوار نے ٹرائل کے دوران عدالت کو بتایا تھا کہ 13 جنوری 2018ء کو بطور ایس ایس پی ملیر مجھے آگاہ کیا گیا کہ شاہ لطیف تھانے کی حدود شیدی گوٹھ میں کچھ دہشت گرد موجود ہیں۔ تاہم مجھے مذکورہ معاملے کا مکمل علم نہیں تھا۔ ایس ایچ او نے مجھ سے مزید نفری بھیجنے کی درخواست کی۔ جس پر میں نے ان سے رابطہ کیا اور اولڈ ٹول پلازہ نزد بقائی اسپتال میں واقع اپنے دفتر سے روانہ ہوگیا۔ پھر میں اور دیگر پولیس عملہ میمن گوٹھ تھانے کے قریب رک گئے۔ جہاں ایس ایچ او نے دو اہلکاروں کو موٹرسائیکل کے ذریعے ہمیں لینے بھیجا۔ جب میں وقوعہ پر پہنچا تو مقابلہ ہوچکا تھا۔
انکوائری پر ایس ایچ او نے مجھے میسج کے ذریعے واقعے کی اطلاع دی۔ جسے میں نے اعلیٰ حکام کو بھیج دیا۔ مفرور ملزم ایس ایچ او شاہ لطیف امان اللہ مروت نے واٹس ایپ میسج پر واقعے سے متعلق تفصیلی میسج مجھے 3 بجکر 39 منٹ پر بھیجا۔ جسے کاپی کرکے میں نے 3 بجکر 41 منٹ پر آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ، ایڈیشنل آئی جی مشتاق مہر اور ڈی آئی جی سلطان خواجہ کو فارورڈ کردیا۔ جبکہ اہلکار اپنی سرکاری ڈیوٹی میں مصروف تھے۔ بطور ایس ایس پی میں نے ایس ایچ او کی فراہم کردہ معلومات کو میڈیا سے شیئر کیا۔ جسے ٹیلی کاسٹ کیا گیا تھا۔
علاوہ ازیں مقدمہ میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے ان ساتوں ملزمان کیخلاف تفتیشی افسر سے چالان طلب کرلیا ہے۔ جس کے بعد ان پر فرد جرم عائد کیے جانے کا امکان ہے۔ ملزمان پر فرد جرم عائد ہونے کے بعد مقدمہ کا ٹرائل چلایا جائے گا۔