فائل فوٹو
فائل فوٹو

خطرناک دہشت گردوں کو قانونی ریلیف ملنے گا

سید حسن شاہ:
سندھ وٹنس پروٹیکشن ایکٹ 2013 پر عملدرآمد نہ ہونے کے باعث متحدہ، لیاری گینگ وار کے سرغنہ اور کالعدم تنظیموں کے دہشت گردوں کو فائدہ پہنچنے لگا۔ عدم تحفظ کے سبب گواہان بیانات قلمبند کروانے سے کترارہے ہیں۔ جس کے سبب سانحہ 12 مئی، لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ کے خلاف درج مقدمات، متحدہ رہنماؤں اور کارکنان کے خلاف اشتعال انگیز تقریر میں سہولت کاری اور غداری سمیت متعدد ہائی پروفائل مقدمات لٹک گئے ہیں۔

ایک وکیل نے وٹنس پروٹیکشن ایکٹ پر عملدرآمد کیلئے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع بھی کرلیا ہے۔ واضح رہے کہ ستمبر 2013 میں سندھ اسمبلی سے وٹنس پروٹیکشن بل منظور کرایا گیا تھا۔ قانون سازی کے بعد عملدرآمد کیلیے رولز بنانے تھے۔ جس کیلئے محکمہ پولیس میں ہی ایک ڈیپارٹمنٹ بنایا جانا تھا۔ تاہم سندھ حکومت کی جانب سے بجٹ فراہم نہیں کیا گیا۔ یہ بات بھی طے ہوگئی تھی کہ کاؤنٹر ٹیرارزم ڈپارٹمنٹ کے انچارج ہی اس ایکٹ پر عملدرآمد کرائیں گے۔ لیکن صورتحال جوں کی توں ہونے کے باعث ایکٹ برائے تحفظ گواہان گزشتہ 10 برسوں سے سرد خانے کی نذر ہے۔

سندھ وٹنس پروٹیکشن ایکٹ 2013 کے مطابق گواہ کو اپنی شناخت چھپانے کیلئے چہرے پر ماسک پہننے، آواز تبدیل کرنے اور نئی شناخت ظاہر کرنے کی اجازت ہوگی۔ اس کے تحفظ کیلئے شناختی پریڈ ویڈیو کانفرنس کے ذریعے بھی کرائی جا سکتی ہے۔ اگر چاہے تو گواہ کے اہلخانہ کو بھی سیکورٹی دی جائے گی۔ گواہوں کی منتقلی کی جاسکے گی۔ رہائش فراہم کی جائے گی۔ ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا جائے گا۔ ضرورت پڑنے پر مالی مدد فراہم کی جائے گی۔ گواہ کی حفاظت کیلئے خصوصی انتظامات کیے جائیں گے۔

اس ایکٹ کے تحت زیر تحفظ گواہ کی موت واقع ہوجائے تو اس کے بچوں کو تعلیم مفت دی جائے گی۔ حکومت کی جانب سے وٹنس پروٹیکشن ایڈوائزری بورڈ تشکیل دیا جائے گا۔ جس کا چیئرمین سیکریٹری ہوم ڈپارٹمنٹ گورنمنٹ آف سندھ ہوگا۔ جبکہ سیکریٹری لاء ڈپارٹمنٹ، سیکریٹری فنانس، ایڈووکیٹ جنرل سندھ، آئی جی سندھ، آئی جی جیل، پراسیکیوٹر جنرل سندھ اور ایڈیشنل آئی جی سی آئی ڈی میں شامل ہوں گے۔ جو محکمہ کے معاملات دیکھیں گے۔ تاہم اتنا عرصہ گزرجانے کے باوجود وٹنس پروٹیکشن ایڈوائزری بورڈ نہ ہی تشکیل دیا جاسکا اور نہ ایکٹ پر عمل درآمد کیا گیا۔

مذکورہ قانون پر عملدرآمد نہ ہونے سے ماضی میں بھی گواہان مناسب موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔ گواہوں کو سیکورٹی کی عدم فراہمی کے سبب سابق میئر کراچی وسیم اختر سمیت دیگر دہشت گردوں کیخلاف سانحہ 12 مئی کیس کے گواہان پیش نہیں ہو رہے اور مقدمات بھی تاخیر کا شکار ہیں۔ اسی طرح وٹنس پروٹیکشن ایکٹ پر عملدرآمد نہ ہونے سے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت دیگر پولیس افسران و اہلکاروں کے خلاف نقیب اللہ قتل کیس کے دو اہم اور چشم دید گواہان اپنے بیانات سے منحرف ہو گئے تھے۔ جس کا فائدہ ملزمان کو ہوا اور راؤ انوار سمیت 18 پولیس افسران و اہلکار بری کردیئے گئے۔

نقیب اللہ قتل کیس میں اشتہاری رہنے والے پولیس افسران نے سرنڈر کردیا ہے اور کیس عدالت میں زیر سماعت ہے۔ لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ کیخلاف بھی لیاری آپریشن سمیت بیشتر مقدمات کے گواہان متعلقہ عدالتوں میں غیر حاضر رہتے ہیں۔ کچھ گواہان نے اپنے بیانات میں عزیر بلوچ کو شناخت کرنے سے بھی انکار کردیا۔ جس کے باعث عزیر بلوچ 25 کے قریب مقدمات میں شواہد کی کمی پر بری کیا جاچکا۔ جبکہ اس کیخلاف 35 سے زائد مقدمات زیر سماعت ہیں۔

متحدہ رہنماؤں اور کارکنان کیخلاف اشتعال انگیز تقریر میں سہولت کاری اور غداری کے مقدمات میں بھی عدم تحفظ کے سبب 7 سال گزر جانے کے باوجود تمام گواہان بیانات ریکارڈ نہیں کراسکے۔ کالعدم لشکر جھنگوی کے اہم رکن اکرم لاہوری کے متعدد مقدمات میں بھی گواہان عدالتوں میں اپنے بیانات سے منحرف ہوچکے۔ عدم تحفظ کے سبب چینی قونصل خانے پر حملے میں سہولت کاری کے کیس بھی التوا کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ ماضی میں کچھ گواہان کو قتل بھی کیا جاچکا۔ سبین محمود قتل کیس کے اہم گواہ غلام عباس کو ستمبر 2015ء میں کورنگی بھٹائی کالونی میں واقع ان کے گھر کے دروازے پر قتل کیا گیا تھا۔ صحافی ولی خان بابر قتل کیس کے گواہان اور وکیل نعمت اللہ رندھاوا کو بھی عدم تحفظ کی وجہ سے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جاچکا۔

سندھ وٹنس پروٹیکشن ایکٹ 2013 پر عملدرآمد کیلئے وکیل طارق منصور ایڈووکیٹ نے سندھ ہائی کورٹ میں آئینی درخواست جمع کرائی ہے۔ جس میں وزارت داخلہ سندھ، صوبائی وزارت قانون، آئی جی اور پراسیکیوٹر جنرل سندھ کو فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ نیشنل ایکشن پلان 2014ء اور 2021ء کے مطابق گواہوں کے تحفظ سے متعلق قانون سازی ضروری ہے۔ اقوام متحدہ کے مختلف کنونشنز پر دستخط کرنے کے باعث پاکستان گواہوں کے تحفظ کے اقدامات کا پابند ہے۔

عدم تحفظ کی وجہ سے گواہان عدالتوں میں نہیں آتے اور عزیر بلوچ جیسے ملزمان بھی بری ہوجاتے ہیں۔ شہادتوں کی کمی پر ملزمان کی بریت سے عوام یہ تاثر لیتے ہیں کہ عدالتیں ملزمان کو رہا کردیتی ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے مطابق وٹنس پروٹیکشن بل، ایڈوائزری بورڈ اور پروٹیکشن افسران کی تقرری کی جائے۔ سندھ ہائیکورٹ نے درخواست پر وزارت داخلہ سندھ، وزارت قانون سندھ سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 15 نومبر کو جواب طلب کرلیا ہے۔