ارشاد کھوکھر :
ڈالر کی قدر میں کمی اور وفاقی حکومت کی جانب سے نجی شعبے میں درآمدی گندم کی لمٹ بڑھانے کے باعث آٹے کے نرخوں میں جلد ہی کمی ہونا شروع ہو جائے گی جس سے ذخیرہ اندوز مافیا کے خواب چکنا چور ہوسکتے ہیں۔ نجی شعبے میں درآمدی گندم کی لمٹ بڑھوانے میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
دوسری جانب نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی جانب سے ٹرکوں اور ٹرالرز میں کم وزن لوڈ کرنے کی عائد کردہ ایکسل لوڈ پالیسی کے خاتمے اور درآمدی گندم پر عائد ساڑھے پانچ سے چھ فیصد ٹیکس کے خاتمے سے ملک بھر میں آٹے کے نرخوں میں مزید کمی ہوسکتی ہے۔ رواں سیزن کے دوران ملک کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں سب سے کم آٹے کے نرخ کراچی میں ہونے کا امکان کا ہے۔
نگراں حکومت کے قیام سے قبل جون میں پی ڈی ایم اے کی حکومت کے دوران ہی اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ رواں سیزن کے دوران گندم درآمد کرنے کی ضرورت پڑے گی۔ تاہم اس وقت کے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو اہمیت دیتے ہوئے گندم درآمد کرنے کے معاملے کو الجھائے رکھا بالآخر جب نگراں حکومت کا قیام وجود میں آیا تو پہلے وفاقی حکومت نے نجی شعبے کو دس لاکھ ٹن (ایک کروڑ بوری) گندم درآمد کرنے کی اجازت دی۔ اس دوران ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر تقریباً تین سو روپے تھی۔
درآمدی گندم کے حوالے سے پہلے فی ٹن 280 ڈالر سے 290 ڈالر تک کے سودے ہوئے۔ وہ گندم تیزی سے پاکستان پہنچ رہی ہے جس میں سے تقریباً ساڑھے تین لاکھ ٹن 35 لاکھ بوری گندم ملک پہنچ چکی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ نجی شعبے میں درآمدی گندم کی پالیسی کے مثبت نتائج آنے کے باعث وفاقی حکومت نے نجی شعبے میں صرف 10 لاکھ ٹن تک گندم درآمد کرنے کی لمٹ کو بڑھادیا ہے۔ اب 19 سے 20 لاکھ ٹن گندم نجی شعبے میں درآمد ہوسکتی ہے۔ اسی طرح اب ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 278 روپے تک آجانے کے باعث درآمدی گندم مزید سستی پڑرہی ہے۔ اور عالمی منڈی میں فی ٹن گندم کے سودے 280 سے 284 ڈالر تک ہورہے ہیں۔
جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پورٹ تک فی سو کلوگرام گندم کی بوری 7 ہزار 800 روپے تک درآمد کنندگان کو پڑرہی ہے۔ اس طرح باردانے ، ٹرانسپورٹیشن وغیرہ کے مد میں 11 فیصد اخراجات اور وفاقی حکومت کی جانب سے فلور مل مالکان کی جانب سے درآمد کی جانے والے گندم پر ساڑھے 5 فیصد انکم ٹیکس اور ٹریڈرز کی جانب سے درآمد کی جانے والی گندم پر 6 فیصد ٹیکس ہونے کے باوجود بھی درآمد کنندگان کو اب فی سوکلوگرام گندم کی بوری 9 ہزار سے ساڑھے 9 ہزار روپے میں پڑے گی۔
نجی شعبے میں گندم درآمد ہونے کے باعث مقامی منڈی میں دیسی گندم کے نرخوں میں بھی تیزی سے کمی آرہی ہے۔ مقامی منڈی میں پہلے فی سوکلوگرام گندم کی بوری کے نرخ 13ہزار روپے تک پہنچ چکے تھے اب فی بوری گندم کی نرخ سوا 11ہزار روپے تک آچکے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ ذخیرہ اندوز مافیا نے دیسی گندم پر بڑے پیمانے پر منافع خوری کرنے کے جو خواب دیکھے تھے اب ان کے وہ خواب چکنا چور ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ مقامی منڈی میں چینی ، کھاد کے ساتھ گندم کے نرخوں میں کمی کی ایک وجہ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف شروع کردہ کریک ڈائون بھی ہے۔
گزشتہ ایک برس کے دوران آٹے کے نرخوں میں جو ہوشربا اضافہ ہوا ہے اس کی ایک وجہ گزشتہ سیزن کے دوران اکتوبر 2022 سے مارچ 2023 تک جو سرکاری گندم جاری کی جاتی تھی اس کی فی بوری پر محکمہ خوراک کی مافیا ایک ہزار روپے تک کمیشن بٹورتی تھی۔ بعد ازاں جب یکم اپریل 2023 سے نئی فصل کی گندم آنا شروع ہوگئی اور سرکاری گندم کا اجرا بھی بند ہوگیا تو اس کے باوجود بھی آٹے کے نرخوں میں کمی نہ ہونے کا سبب یہ تھا کہ خود حکومت نے گزشتہ سیزن کے مقابلے میں رواں سیزن کے دوران فی سوکلوگرام گندم کی امدادی قیمت ساڑھے پانچ ہزار روپے سے بڑھاکر دس ہزار روپے کردی تھی۔
ظاہر ہے جب گند کی امدادی قیمت میں 81 فیصد اضافہ ہو تو یقینا اس سے آٹے کے نرخوں میں اضافہ تو ہوگا ہی۔ اس صورتحال میں فی کلوگرام آٹے کے نرخ 180 روپے سے بھی تجاوز کر گئے تھے۔ لیکن درآمدی گندم آنے کے بعد آٹے کے نرخوں میں اضافہ نہیں ہوا ہے۔ اس وقت فلور ملز مالکان فی سوکلوگرام ڈھائی نمبر آٹا 136 روپے اور میدہ، فائن آٹا 146 روپے پہنچ کے حساب سے سپلائی کر رہے ہیں۔ جس کے باعث عوام کو فی کلوگرام آٹا 150 سے 160 روپے ابھی بھی مل رہا ہے۔ لیکن درآمدی گندم سستی ہونے کے باعث آئندہ چند روز میں فی کلوگرام آٹے کے نرخوں میں دس روپے تک کی کمی متوقع ہے۔ اور حکومت اگر درآمدی گندم پر عائد ٹیکس ختم کردی تو فی کلوگرام آٹے کے نرخوں میں پندرہ روپے کی کمی بھی ہوسکتی ہے۔
آٹے کے نرخوں میں سے بھی زیادہ کمی ہوسکتی ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے جو ایکسل لوڈ کی پالیسی عائد کی ہے اسے ختم کیا جائے۔ مذکورہ پالیسی کے تحت دس وہیلر ٹرکوں کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ 17 ٹن سے زیادہ وزن لوڈ نہیں کریں گے۔ جس کے باعث اگر صرف گندم کو ہی دکھا جائے تو پہلے جو ٹرک 280 سے 300 ٹن وزن اٹھاتی رہی ہیں اب انہیں 17 ٹن یعنی 170 بوری لوڈ کرنے کی اجازت ہے۔ اس طرح 22 وہیلر ٹرالرز کو 600 کے بجائے ساڑھے 4 سو بوری تک لوڈ کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ جس کی وجہ سے ٹرانسپورٹیشن مہنگی پڑ رہی ہے کیونکہ ٹرک میں 170 بوری ہو یا 300 بوری ، ٹرانسپورٹرز کرایہ وہی لیتے ہیں۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے کے پی ٹی اور پورٹ قاسم اتھارٹی کو بھی اس بات کا پابند بنایا ہے کہ پورٹ سے ایکسل لوڈ پالیسی سے زیادہ وزن لوڈ نہیں ہوگا۔ یہ پالیسی جاری رہی تو نہ صرف پورٹ سے سامان کی ترسیل میں تاخیر ہوگی بلکہ کرایہ بڑھنے سے گندم کی نرخوں میں جتنی کمی ہونی چاہئے اتنی نہیں ہوگی۔
درآمدی گندم کی ترسیل صرف کراچی ڈویڑن یا صوبہ سندھ تک محدود نہیں بلکہ پنجاب اور پشاور، کوئٹہ تک بھی درآمدی گندم جارہی ہے۔ ایسے میں حکومت پنجاب نے رواں سیزن کے دوران فی سوکلوگرام گندم کی امدادی قیمت ساڑھے دس ہزار روپے مقرر کی ہے۔ اور پنجاب کی حکومت اس صورتحال میں کوٹہ کے بجائے لبرل پالیسی کے تحت گندم جاری کرنے کا سوچ رہی ہے۔
یعنی فلور ملوں کو جتنی گندم کی ضرورت ہو اتنی سرکاری گندم اٹھاسکتی ہے۔ اس صورتحال میں جب پنجاب سے سرکاری گندم کا اجرا شروع ہوگا تو پھر پنجاب کی اوپن مارکیٹ میں درآمدی گندم کی ترسیل کی طلب نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ درآمدی گندم کی زیادہ تر طلب پھر کراچی ڈویڑن تک محدود ہوگی۔ اس کے باعث ملک بھر میں سب سے کم آٹے کے نرخ کراچی میں ہونے کی توقع ہے۔