جمائما خان نے درمیانہ راستہ اختیار کر رکھا ہے، فائل فوٹو
 جمائما خان نے درمیانہ راستہ اختیار کر رکھا ہے، فائل فوٹو

عمران کے سابق سالے اسرائیل کے حق میں پیش پیش

امت رپورٹ:

عمران خان کے دونوں سابقہ برادر نسبتی ( سالے ) اسرائیل کی حمایت میں پیش پیش ہیں۔ انہیں سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ تو دنیا کا عظیم سانحہ دکھائی دیتا ہے، لیکن غزہ پر وحشیانہ اسرائیلی بمباری سے ساڑھے تین ہزار بچوں سمیت ساڑھے سات ہزار سے زائد فلسطینیوں کی شہادتیں نظر نہیں آرہی ہیں۔

چھوٹے سالے، بین گولڈ اسمتھ نے اپنے ٹوئٹر (ایکس) اکاؤنٹ پر باقاعدہ اسرائیل کے حق میں ایک دستخطی مہم شروع کر رکھی ہے۔ جبکہ بڑ ا سالا، زیک گولڈ اسمتھ اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر حماس کے خلاف ایسی پروپیگنڈا کہانیاں شیئر کرنے میں مصروف ہے جس کا مین اسٹریم میڈیا میں نام و نشان نہیں ملتا۔ دونوں بھائیوں کے برعکس ان کی بہن اور عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائما گولڈ اسمتھ نے درمیانہ راستہ اختیار کر رکھا ہے۔

جمائما خان کے چھوٹے بھائی اور عمران خان کے سابقہ سالے بین گولڈ اسمتھ نے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ’’اکتوبر ڈیکلریشن‘‘ کے نام سے جو دستخطی مہم شروع کر رکھی ہے، اسے ’’برٹش فرینڈز آف اسرائیل‘‘ کا نام دیا ہے اور اس کی حمایت میں دستخط کرنے کی اپیل کرتے ہوئے بین اسمتھ نے لکھا ہے ’’میں نہ تو اسرائیلی ہوں، اور نہ ہی درحقیقت یہودی ہوں (میرے دادا یہودی تھے)۔ لیکن برطانیہ میں تمام پس منظر سے تعلق رکھنے والے بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح میں بھی اسرائیل میں 7 اکتوبر کے قتل عام میں یہودی شہریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے کافی حد تک خوفزدہ ہوں۔ براہ کرم اس خط پر دستخط کرنے پر غور کریں، تاکہ اس خوفناک وقت میں برطانیہ کے یہودی تارکین وطن اور دنیا کی واحد (چھوٹی) یہودی ریاست کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کر سکیں۔‘‘ بین اسمتھ نہتے فلسطینی شہریوں پر اسرائیلی بمباری کے خلاف دنیا بھر میں ہونے والے مظاہروں پر بھی دکھی ہیں۔

دوسری جانب بین اسمتھ کے بڑے بھائی زیک گولڈ اسمتھ کو بھی غزہ پر اسرائیلی بمباری کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں ہونے والے مظاہروں پر سخت تکلیف ہے۔ چند روز پہلے برطانیہ میں ہونے والے ایک ایسے ہی بڑے مظاہرے پر زیک گولڈ اسمتھ نے پوسٹ کی ’’لندن کے اس ہجوم میں بڑی تعداد میں موجود لوگ قاتلانہ حملوں کا جشن منانے اور اسرائیل سے یہودیوں کے خاتمے پر اکسانے کے لیے موجود ہیں۔‘‘

زیک گولڈ اسمتھ کو ناصرف ظالمانہ اسرائیلی بمباری اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف دنیا بھر میں ہونے والے مظاہروں پر تکلیف ہے۔ بلکہ وہ سوشل میڈیا پر اسرائیلی جھوٹے پروپیگنڈے کو پھیلانے میں بھی پیش پیش ہے۔ زیک کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر سات اکتوبر کو حماس کے حملے میں متاثر ہونے والی یہودی خاندانوں کی ’’درد بھری‘‘ کہانیوں کی بھرمار ہے۔

جبکہ اسرائیلی بمباری سے غزہ میں ہزاروں بچوں کی شہادت پر افسوس کا ایک لفظ نہیں ملتا۔ زیک گولڈ اسمتھ نے ایسی جھوٹی کہانیاں بھی شیئر کی ہیں، جن میں حماس کے جنگجوؤں کے ہاتھوں اسرائیلیوں بچیوں کے قتل اور ان سے زیادتی کا پروپیگنڈا کیا گیا ہے۔ کئی اسرائیلی لڑکیوں کے سرقلم کرنے کا ذکر ہے۔ لیکن یہ کہانیاں مین اسٹریم میڈیا میں نہیں ملتیں۔

یہ وہی زیک گولڈ اسمتھ ہے جو لندن کی مئیر شپ کا الیکشن لڑرہا تھا تو عمران خان ناصرف اس کی انتخابی مہم چلانے گئے تھے، بلکہ اس کمپین کے لئے چندہ بھی کیا تھا۔
اپنے دونوں بھائیوں کے برعکس جمائما گولڈ اسمتھ نے بیچ کا راستہ اختیار کر رکھا ہے۔ سات اکتوبر کو شروع ہونے والے اسرائیل، حماس تصادم کے تیسرے روز انہوں نے ٹویٹ کیا ’’میں اس تنازعہ کے دونوں اطراف کے معصوم انسانوں کے ساتھ کھڑی ہوں۔ دونوں کی مذمت کریں۔‘‘ اس پر ٹوئٹر صارفین نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔ ایک ٹوئٹر صارف عاصم نے یہ شعر لکھا
’’عجب تیری سیاست، عجب تیرا نظام
حسین سے بھی مراسم، یزید کو بھی سلام‘‘

ایک اور صارف نے کہا ’’قابض اور مقبوضہ عوام ایک ہی نہیں ہوسکتے۔ صرف قابضین کی مذمت کریں۔‘‘ تاہم پھر بھی اتنا ہے کہ جمائما اپنے دونوں متعصب بھائیوں کے برعکس غزہ پر اسرائیلی بمباری روکنے اور مسلسل جنگ بندی پر زور دے رہی ہیں۔ چند روز پہلے جمائما نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایک طویل پوسٹ کی، جس میں انہوں نے اپنے سابق شوہر عمران خان پر وزیر آباد میں ہونے قاتلانہ حملے کا تعلق بھی یہودیت کے خلاف نفرت سے جوڑا اور لکھا ’’یہودی اور مسلمان خاندان کے افراد میرے دوست ہیں، جن سے میں بہت پیار کرتی ہوں۔

میں دس سال ایک مسلم ملک میں رہی ہوں۔ غزہ اور مغربی کنارے میں بھی وقت گزارا ہے اور میرا اسرائیل سے تاریخی خاندانی تعلق بھی ہے۔ مجھے ذاتی طور پر یہودی ہونے کی وجہ سے جان سے مارنے کی بے شمار دھمکیاں ملیں۔ جبکہ کئی دہائیوں سے سام دشمنی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ میرے بچوں کے والد کو گولی ماری گئی۔ حملہ آور کے مطابق اس نے عمران کی ’’یہودیوں سے قربت‘‘ کی وجہ سے یہ قدم اٹھایا۔ اس دوران میرے بچوں کو برطانیہ میں اسلامو فوبیا (اور پاکستان میں سام دشمنی) کا سامنا کرنا پڑا۔ شاید ان تجربات کی وجہ سے میں جذباتی طور پر یہ مانتی ہوں کہ سیاسی قبائلیت نہ صرف معقول گفتگو، بلکہ امن کی بھی دشمن ہے۔

یہی وجہ ہے کہ میں ان اسرائیلیوں کی بہادری اور دیانت داری سے بہت خوفزدہ ہوں، جنہوں نے گزشتہ چند دنوں میں اپنے رشتہ داروں کو کھونے کے باوجود غزہ پر جاری بمباری کے خلاف کچھ طاقتور ترین بیانات دیے ہیں۔ میری دعا ہے کہ ان کی آواز سنی جائے۔ کیونکہ مزید ہزاروں معصوم بچوں کو مارنے اور معذور کرنے سے دہشت زدہ یرغمالیوں کو نہیں بچایا جا سکے گا اور نہ ہی اس سے امن قائم ہو گا۔ بلکہ نائن الیون کے بعد عراق اور افغانستان کی جنگوں کی طرح، ممکنہ طور پر ہم سب کے لیے مزید دہشت گردی اور کم محفوظ دنیا ہی پیدا ہوگی۔‘‘