کراچی: ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں عالمی یوم ذیابیطس کے موقع پر آگہی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ماہرین صحت نے کہا ہے کہ پاکستان شوگر کے مریضوں کی بڑھتی شرح کے باعث دنیا میں پہلے نمبر پر آگیا ہے، مصر اور کویت پاکستان کے بعد آتے ہیں۔ دنیا میں ہر پانچویں سیکنڈ میں ہونے والی ایک موت شوگر کے مریض کی ہوتی ہے۔ دنیا میں 67 لاکھ لوگ سالانہ شوگر کے باعث مر جاتے ہیں۔ پاکستان میں شوگر کے مریضوں کی تعداد تین کروڑ 30 لاکھ (33 ملین) سے تجاوز کر گئی ہے۔ پاکستان میں بالغ افراد میں ذیابیطس کی شرح 26.7 فیصد سے زائد ہے جبکہ نوجوانوں میں اتنے ہی لوگوں کے شوگر کے مریض بننے کے خطرات موجود ہیں کیونکہ گزشتہ برسوں میں ہمارے یہاں موٹاپا تیزی سے بڑھاہے ,غذا میں چکنائی کا زیادہ استعمال، ورزش سے جی چرانے کی عادت اور معاشی دباؤ نے پاکستان میں اس مرض کو بڑھا دیا ہے۔
نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ڈایا بیٹیز اینڈ انڈوکرائنولوجی (نائیڈ )اوجھا کیمپس میں آگہی سیمینار سے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی قریشی، این آئی سی وی ڈی کے پروفیسر سعید اے مہر، پروفیسر طارق فرمان، بریگیڈیئر (ر) شعیب احمد، ڈاکٹر نثار احمد سیال، پروفیسر زیبا حق اور پروفیسر اختر علی بلوچ نے خطاب کیا۔ پروفیسر محمد سعید قریشی نے کہا کہ پاکستان میں شوگر کے مریضوں کی بڑھتی تعداد خطرے کی گھنٹی ہے، فوری طور پر ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جس سے شوگر کے مریضوں کی تعداد کم ہو کیونکہ ہمارے نوجوانوں کی غذائی عادات اور طرز زندگی کو صحت مندانہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پروفیسر سعید اے مہر نے کہا کہ شوگر کے مریضوں کو دل کا دورہ پڑنے کا خطرہ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ شوگر میں مبتلا افراد کو ڈاکٹر سے معائنے کے ساتھ ساتھ غذا میں بھی احتیاط برتنی چاہیئے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ شوگر کے مضر اثرات سے بچاؤ کا واحد حل احتیاط ہے۔ پروفیسر طارق فرمان نے کہا کہ دنیا میں 67 لاکھ افراد سالانہ ذیابیطس کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں، ہر پانچ سیکنڈ میں ایک شخص کی موت اسی مرض کی وجہ سے ہو رہی ہے۔
اس خطرناک اور مہلک مرض کو روکنے کے لیے اجتماعی دانش کے متحرک ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ چند لوگ اب کچھ نہیں کر سکتے بات بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ بریگیڈیئر (ر) شعیب احمد نے کہا کہ شوگر کے مریض پر شوگر کے ساتھ ڈپریشن کا حملہ بھی ہوتا ہے اس لیے شوگر کے مریض کا نفسیاتی معائنہ بھی باقاعدگی سے ہونا چاہیے۔زندگی کے روز مرہ امور کی بے ترتیبی شوگر کے مرض کی اہم وجہ ہے۔ زندگی کو منظم کر کے ہی بہت سے امراض سے بچا جا سکتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ہر شخص کو 10 ہزار قدم چلنا چاہیئے۔ ہر وہ شخص اپنے حساب سے 10 ہزار قدم چلے گا تو صحت مند رہے گا،دوڑ کر چلنے والے دوڑ کر چلیں اور چہل قدمی کرنے والے آہستہ چل سکتے ہیں مگر تعداد پوری کریں۔ ڈاکٹر نثار سیال نے کہا کہ شوگر کے مریض کو اپنی آنکھوں کے پردے کا سال میں ایک مرتبہ معائنہ کرانا چاہیے کیونکہ اکثر مریض ہمارے پاس معائنے کے لیے آتے ہیں، ان میں جنہیں شوگر میں مبتلا ہوئے پانچ سال ہو جاتے ہیں تو ان کا پردہ ضرور متاثر ہوتا ہے۔ شوگر ،دل گردے اور دیگر اعضاء کے ساتھ ساتھ آنکھ کو بھی ضرور متاثر کرتی ہے۔ ڈاکٹر زیبا حق نے کہا کہ پاکستان میں آدھے ایسے لوگ ہیں جنہیں علم ہے کہ وہ شوگر میں مبتلا ہیں جبکہ آدھے لوگ شوگر میں مبتلا ہونے کے باوجود علم نہیں رکھتے ہیں۔ پروفیسر اختر علی بلوچ نے کہا کہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ڈایابیٹیز اینڈ انڈوکرائنولوجی مریضوں کی خدمت کے لیے انسولین بھی مفت تقسیم کرتا ہے اور "فٹ” کیئر کلینک سمیت شوگر کے مریضوں کی مکمل دیکھ بھال کرتا ہے۔ 150 مریض روزانہ کی او پی ڈی سے مستفید ہوتے ہیں۔ تقریب کے آخر میں وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے پروفیسر سعید اے مہر سمیت تمام مقررین میں شیلڈز تقسیم کیں۔