فیض حمید پر الزامات سنگین، نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، سپریم کورٹ

 

اسلام آباد:  سپریم کورٹ نے سابق ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) انٹر سروسز انٹلی جنس( آئی ایس آئی )لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف دائر آئینی درخواست نمٹا دی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ نے فیض حمید کے خلاف آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر درخواست کی 8اکتوبر 2023ء کی سماعت کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اگر درخواست گزار فیض حمید کے خلاف وزارت دفاع میں شکایت درج کرتا ہے توا س پر قانون کے مطابق غورکیا جائے گا جبکہ درخواست گزار کسی بھی قانونی فورم سے قانون کے مطابق دادرسی کے لیے رجوع کرنے میں آزاد ہے۔ تین صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس نے تحریر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ معیز احمد خان نے آرٹیکل 184/3کے تحت درخواست دائر کی جس میں مسلح افواج کے ملازم اور آئی ایس آئی کے ساتھ کام کرنے والے افسر لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید پر سنگین الزامات عائد کئے گئے ہیں ، جبکہ کہا گیا ہے کہ فیض حمید نے اپنے منصب کا غلط استعمال کیا اور ان کے حکم پر ان کے ماتحتوں نے جرم کیا ۔ فیصلے میں درخواست گزار کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی تفصیلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اسے اپنا کاروبار،ٹاپ سٹی ہائوسنگ سوسائٹی فیض حمید کے نامزد کردہ شخص کے نام پر منتقل کرنے پر مجبور کیا گیا ،درخواست گزار، ان کے اہل خانہ اور ملازمین کے خلاف جھوٹے مقدمات بھی بنائے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے درخواست گزار کے وکیل سے پوچھا کہ کیا ایک ذاتی شکایت کے معاملے پر آرٹیکل 184/3کا اطلاق ہوتا ہے؟،کیسے زیر غور معاملہ مفاد عامہ میں آتا ہے جس میں بنیادی حقو کا تحفظ مانگا گیا ہے ؟۔وکیل حفیظ الرحمان چوہدری نے بتایا کہ شکایت کرنے پر کوئی اتھارٹی ان کے خلاف کارروائی نہیں کرے گی۔فیصلے کے مطابق عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو معاونت کے لیے طلب کیا اور ان سے معلوم کیا کہ کیا اس صورتحال میں داد رسی کا کوئی فورم موجود ہے اور کیا درخواست گزار کی یہ شکایت درست ہے کہ ان کی شکایت پر کارروائی نہیں ہوگی ؟۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ داد رسی کے لیے درخواست گزار کے پاس وزارت دفاع سمیت متعدد فورمز موجود ہیں،چاہے تو فوجداری مقدمہ دائر کرے ،ازالے کا دعویٰ کرلیں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اگر وزارت دفاع سے رجوع کیا جاتا ہے تو شکایت پر غور کیا جائے گا۔فیصلے میں قرار دیا گیا کہ الزامات انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں اور اگر درست ہیں تو بلا شبہ اس سے وفاقی حکومت،مسلح افواج ،آئی ایس آئی اور پاکستان رینجرز کی بدنامی ہوگی اس لیے انہیں نظر انداز کرکے چھوڑا نہیں جاسکتا ۔

تاہم آرٹیکل 184/3کے تحت دائر کیس کی نوعیت کئی وجوہات کی بنیاد پر دیگر مقدمات سے مختلف ہوتی ہے ۔اول یہ کہ عدالت براہ راست اختیار سماعت استعمال کرتی ہے، اس کے استعمال میں احتیاط کرنی چاہیے۔دوئم یہ کہ جب دادرسی کے لیے دوسرا فورم موجود ہو تو بہتر یہی ہے کہ وہ استعمال ہو۔تیسرا یہ کہ ہائی کورٹ کے فیصلوں کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں آتی ہے اور چوتھا یہ کہ سپریم کورٹ کے براہ راست کیس سننے سے دوسروں کے حقوق متاثر ہوسکتے ہیں۔ تاہم درخواست گزار کو خدشہ ہے کہ وزارت دفاع ان کی شکایت پر کارروائی نہیں کرے گی،لیکن ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی کہ شکایت پر واجب غور ہوگا۔ ہمیں حکومت پاکستان کی طرف سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی یقین دہانی پر کوئی شک نہیں اس لئے درخواست گزار درخواست گزار کا خدشہ درست نہیں، وہ مذکورہ فورمز میں سے کسی سے بھی رجوع کرنے میں آزاد ہے ۔درخواست مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ نمٹادی جاتی ہے۔