لاڑکانہ: آثار قدیمہ موئن جو دڑو سے دو ہزار سال قدیم دوسری صدی عیسوی سے منسلک تانبے کے سکوں سے بھرا مٹی کا پیالہ دریافت کیا گیا ہے ماہرین اسے کھدائی کے سو سال بعد کی اہم ترین دریافت قرار دے رہے ہیں۔دنیا کی قدیم تہذیبوں میں شمار ہونے والے موئن جو دڑو کے آثار بھی عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ ہیں ۔ان آثار کو 1912 میں دریافت کیا گیا تھا اور پہلی کھدائی ں 1922 میں برطانوی ماہر آر ڈی بینر نے کی تھی جو کہ سر جان مارشل سمیت مختلف ماہرین کی رہنمائی میں 1931 تک جاری رہی تھی۔اب موئن جو دڑو کے مشہور اسٹوپا کے قریب مرمتی کام کے دوران تقریب ایک سو سال بعد تانبے کے متعدد سکے دریافت کئے گئے ہیں جو کہ مٹی کے برتن میں موجود تھے۔ڈاریکٹر موئن جو دڑو سید شاکر علی شاہ سمیت دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ کہ یہ سکے دوسری سے پانچویں صدی عیسوی کے بدھ مت کے کوشان بادشاہوں کے دور سے منسلک ہیں۔
دریافت ہونے والے سکوں کو لیبارٹری میں مشاہدات کے لیے بھیجا جائے گا جس کے بعد اس دریافت کو میوزیم کی زینت بنایا جائے گا۔موئن جو دڑو سے اب تک دریافت ہونے والے 4 ہزار 3 سو سے زائد قیمتی سکے اور ڈانسنگ گرل کا مجسمہ بھارت سمیت دنیا کے مختلف عجائب گھروں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔امید کی جارہی ہے کہ حالیہ دریافت موئن جو دڑو عجائب گھر کی زینت بنے گی۔دوسری جانب جاپان سے تعلق رکھنے والے غیر ملکی سیاحوں کے 10 رکنی وفد نے آثار قدیمہ موئن جو دڑو کا دورہ کیا۔غیر ملکی سیاحوں نے موئن جو دڑو کے اسٹوپا، ڈی کے ایریا، گریٹ باتھ اور میوزیم سمیت مختلف مقامات کی تاریخی حیثیت سے متعلق آگاہی لی ۔غیر ملکی سیاحوں کو محکمہ ثقافت کے گائیڈز نے موئن جو دڑو کی تاریخ اور دیگر تفصیلات کے بارے میں بتایا۔