عمران خان :
رشوت کے کالے دھن سے ملک اور بیرون ملک خاندان اور ملازمین کے ناموں پر کروڑوں روپے کی جائیدادیں، طلائی زیورات، گاڑیاں اور اثاثے بنانے کے الزامات میں ایف آئی اے اینٹی منی لانڈرنگ سرکل کراچی میں محکمہ کسٹمز، پولیس، سی ٹی ڈی افسران اور اسمگلروں کے خلاف اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت باقاعدہ انکوائری نمبر73/2023 رجسٹرڈ کرلی گئی۔
انکوائری میں ابتدائی طور پر 34 افراد کو نامزد کرکے تفتیش شروع کی گئی ہے۔ منی لانڈرنگ کی یہ تحقیقات ایف آئی اے اینٹی کرپشن اینڈ کرائم سرکل کراچی کے مقدمہ الزام نمبر 19/2023 کی آف شوٹ انکوائری کے طور پر شروع کی گئی۔ جس میں محکمہ کسٹمز، پولیس، سی ٹی ڈی افسران اور اسمگلروں سمیت 50 ملزمان کے خلاف کرپشن، اختیارات کے ناجائز استعمال اور اسمگلنگ کی سہولت کاری کے الزامات کے تحت گزشتہ ہفتے عدالت میں حتمی چالان پیش کیا گیا ہے۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق ایف آئی اے اینٹی منی لاندرنگ سرکل کراچی میں انکوائری نمبر 73/2023 درج کی گئی ہے۔ جو ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل کی جانب سے موصول ہونے والی رپورٹ کی روشنی میں رجسٹرڈ کی گئی۔ جس میں کسٹمز، سی ٹی ڈی اور پولیس کے افسران کے ساتھ پرائیویٹ اسمگلروں کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔
دستاویزات کے مطابق گزشتہ ہفتے ایف آئی اے نے کرپشن، اختیارات کے ناجائز استعمال اور اسمگلروں کی سہولت کاری کے الزامات کے میگا اسکینڈل کا حتمی چالان 50 ملزمان کے خلاف عدالت میں پیش کردیا۔ نامزد ملزمان میں کسٹمز، پولیس کے اعلیٰ افسران اور ماتحت افسران کے ساتھ ہی چھالیہ کی اسمگلنگ میں ملوث پرائیویٹ ملزمان اور سوئٹ سپاری فیکٹریوں کے مالکان شامل ہیں۔
ایف آئی اے اینٹی کرپشن اینڈ کرائم سرکل کے مقدمہ الزام نمبر 19/2023 میں یہ رپورٹ تفتیشی افسر اسسٹنٹ ڈائریکٹر عبدالجبار میندھرو کی جانب سے گزشتہ روز جج ڈاکٹر شبانہ وحید کی انسداد رشوت ستانی کی خصوصی عدالت میں جمع کروائی گئی۔ جسے منظور کرنے کے بعد ہی مذکورہ 50 میں سے 34 ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے گئے ہیں۔ دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ چالان میں ملوث کسٹمز اور پولیس افسران کی جانب سے رشوت وصولی کی رقوم اور ان کی ڈیفنس سمیت کراچی کے دیگرعلاقوں، اندرون سندھ اور ملک کے دیگر شہروں میں موجود اثاثوں کی تفصیلات بھی شامل کی گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی چالان میں چھالیہ کے اسمگلروں اور سوئت سپاری مالکان کی جانب سے بے نامی کمپنیوں کی اربوں روپے مالیت کی سرمایہ کاری کی تفصیلات بھی شامل کی گئی ہیں۔
چالان میں36 ملزمان کو مفرور کے خانے یعنی کالم 2 میں رکھا گیا ہے۔ جبکہ کالم 3 میں 2 ملزمان گرفتار بتائے گئے ہیں۔ جن میں سپرنٹنڈنٹ کسٹمز یاور عباس اور سپرنٹنڈنٹ کسٹمز طارق محمود شامل ہیں۔ اسی طرح کالم 3 میں وہ ملزمان جو عدالت کی جانب سے ضمانت پر ہیں، ان کی تعداد 12 بتائی گئی ہے۔
مجموعی طور پر جن ملزمان کو ایف آئی اے نے جولائی میں درج ہونے والے مقدمہ کی تفتیش میں نامزد کیا ہے۔ ان میں سابق چیف کلکٹر کسٹمز منظور حسین میمن، کلکٹر عثمان باجوہ، کلکٹر ثاقف سعید، کلکٹر عامر تھہیم، کلکٹر فیروز عالم جونیجو، کلکٹر ڈاکٹر فرید اقبال قریشی، ایڈیشنل کمشنر ان لینڈ ریونیو اعجاز احمد بٹ، اے ڈی سی اعجاز راجپر، ایڈیشنل ڈائریکٹر رانا تسلیم اختر، اسسٹنٹ کلکٹر راغب حسین، سپرنٹنڈنٹ جبار خان نیازی، سپرنٹنڈنٹ جمال ضیا، سپرنٹنڈنٹ صلاح الدین، سپرنٹنڈنٹ بشیر بھٹو، انسپکٹر سعید فاروقی، سپرنٹنڈنٹ افتخار حسین، پریونٹو افسر سید مومن شاہ، پریونٹو افسر شہباز، پریونٹو افسر دانش کلیم، سپرنٹنڈنٹ عرفان احمد، سپرنٹنڈنٹ اعجاز علی کھوسو، پریونٹو افسر ظہیر چیمہ، انٹیلی جنس افسر حافظ یونس، انٹیلی جنس افسر انور فاروقی، انٹیلی جنس افسر اسد فاروقی، پی او عبیداللہ، ڈی سی اے ایس او طارق حسین، پریونٹو افسر حسن سردار شامل ہیں۔ سندھ پولیس سے سابق ایس ایس پی کیماڑی فدا حسین جانوری، ان کے دست راست پولیس اہلکار واجد، سی ٹی ڈی سندھ کے افسر راجہ خالد اور علی رضا بھی شامل ہیں۔
جبکہ چھالیہ کے اسمگلروں اور سوئٹ سپاری کے مالکان میں شامل نامزد ملزمان میں اس مقدمے کا ماسٹر مائنڈ ملزم سنی سوئٹ سپاری کے مالک نعمان میمن کا بھائی عمران یوسف نورانی، میٹرو سوئٹ سپاری کا عاطف میٹرو، اسمگلر انور پٹھان، اسمگلرچھالیہ ڈیلر سہیل عرف سکھا، سوئٹ سپاری فیکٹری کرن فوڈ کا مالک حنیف ہارون، چمن کوئٹہ کا کراچی میں سرگرم اسمگلر داؤد مالازئی، سپاری فیکٹری فیروز فوڈ پروڈکٹ کے مالک مشتاق تاجانی، شہزاد تاجانی، جیکر فوڈ پروڈکت کمپنی کا مالک اور مرکزی کردار عمران نورانی کی بے نامی کمپنیاں چلانے والا ملزم ندیم قادری، گولڈن فوڈ کمپنی کا محمد عمران شہزاد، منصور فوڈ پروڈکٹ چھالیہ کا محمد منصورکو شامل کیا گیا ہے۔
مرکزی ملزم عمران نورانی نے گزشتہ دنوں کیس کی ایک سماعت کے دوران عدالت کے رو برو اعترافی بیان دیا تھا کہ، 2018ء میں جب چھالیہ کی قانونی درآمد بند ہوئی تو کسٹمز کی ٹیموں نے شہر بھر کی سوئٹ سپاری کی فیکٹریوں پر چھاپے مار کر اسمگل شدہ چھالیہ پکڑنی شروع کردی تھی۔ جس کے بعد تمام فیکٹری مالکان کے نمائندہ کی صورت میں عمران نورانی نے کسٹمز، پولیس اور دیگر افسران تک کروڑوں روپے پہنچانے کا سلسلہ شروع کیا اور یہ سلسلہ وقتاً فوقتاً 2023ء تک چلتا رہا۔ ایف آئی اے کے مطابق ان کی فیکٹریوں میں سنی سوئٹ سپاری، بمبئی سوئٹ سپاری، نگینہ سوئٹ سپاری، رتنا سوئٹ سپاری، میٹرو سوئٹ سپاری، پیپسی سوئٹ سپاری اور دیگر شامل ہیں۔
تحقیقات میں کسٹمزکے میگا کرپشن کیس میں ملوث کسٹمز افسران و دیگر ایجنسیوں کے افسران اور پرائیوٹ افرادکی آمدنی اور ان کے اخراجات کی تفصیلات حاصل کرلی گئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق مبینہ طور پر مذکورہ ملزمان (پاکستان کسٹمز کے افسران) اور پرائیویٹ افراد نے اپنے اور اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ ساتھ نوکروں کے ناموں پر بڑی منقولہ/ غیر منقولہ جائیدادیں خریدی ہوئی ہیں اور باہر زندگی بسرکرنے پر بھاری اخراجات کررہے ہیں۔
جبکہ ان کے یوٹیلیٹی بلوں کے ساتھ ساتھ ان کے بچوں کی تعلیم، بیرون ملک سفر کرنے اور ان کے نام پر بینکوں میں کھولے گئے اکائونٹس میں بھاری رقوم رکھی ہوئی ہیں۔ اور کچھ نے توبے نامی کمپنیاں بھی بنائی ہوئی ہیں۔ جبکہ منی لانڈرنگ کے حوالے سے بھی تمام پہلوئوں کو دیکھا جارہا ہے۔ تاکہ ان کے خلاف منی لانڈرنگ کے تحت کارروائی کا آغاز کیا جاسکے۔