محمد قاسم :
افغان حکومت نے طورخم بارڈر پر تجارت معطل کر کے سرحد بند کر دی۔ یہ اقدام منگل کو اس وقت اٹھایا گیا جب پاکستان کسٹم کی جانب سے افغان ڈرائیوروں کیلئے ویزا لازمی قرار دے دیا گیا اور افغانستان سے آنے والے تجارتی ٹرکوں اور مال بردار گاڑیوں کو داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔ جس پر افغان گمرک (کسٹم) نے اپنی حکومت کو آگاہ کیا اور افغان سرحدی امور کے حکام نے طورخم سرحد بند کر دی۔
طورخم سرحد پر تعینات کسٹم حکام کے مطابق حکومت پاکستان نے افغان ڈرائیورز کیلئے بھی ویزا لازمی قرار دیا ہے۔ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین کشیدگی میں مزید اضافے سے پاکستان کی تجارت کو نقصان ہو گا۔ خیبرپختون کے تاجر اس پابندی سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ کیونکہ ایران افغانستان کو بغیر ویزے کے تجارتی پرمٹ پر انٹری دے رہا ہے۔
طالبان اورایران کے درمیان تعلقات میں گرم جوشی آئی ہے۔ ذرائع کے مطابق افغان حکام کی جانب سے سرحد کھولنے سے انکار پر پاکستان سے جانے والے افغان مہاجرین کو مشکلات کا سامنا ہے۔ ایک جانب ہولڈنگ سینٹر میں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں تو دوسری طرف سخت سردی کی وجہ سے بچوں میں بیماریاں پھیل رہی ہیں اور افغانوں کی پاکستان سے نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ افغان مہاجرین سرحد پر پھنس کر رہ گئے ہیں اور انہوں سے سرحد کھولنے اور سردیوں میں مہاجرین کی واپسی پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے۔
دوسری جانب صوبائی محکمہ داخلہ نے پولیس کو 18 ہزار غیرقانونی مقیم افغانوں کی فہرست ارسال کرکے انہیں گرفتار کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ اس فہرست میں 6 ہزار سے زائد بچے اور 5 ہزار سے زائد خواتین شامل ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ طورخم بارڈر سے گزشتہ روز مزید 472 خاندان افغانستان گئے۔ جن میں 901 مرد، 541 خواتین اور 925 بچے شامل تھے۔ محکمہ داخلہ کے مطابق منگل تک 2 لاکھ 24 ہزار 591 افراد براستہ طورخم واپس جا چکے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 15 ستمبر سے اب تک تقریباً ڈھائی لاکھ کے قریب افراد مختلف سرحدی راستوں سے واپس چلے گئے ہیں۔ جبکہ پولیس نے 692 افراد کو گرفتار کر کے طورخم سرحد سے واپس افغانستان بھجوایا ہے۔ 3 ہزار سے زائد افراد کو ڈیپورٹ کیا گیا اور انہیں سرحد پار افغان حکام کے حوالے کیا گیا۔ جن میں 36 ہزار 9 افراد کو خیبرپختون سے ملک بدر کیا گیا ہے۔ جبکہ 48 غیرقانونی افراد کو طورخم سرحد منگل کے روز پہنچایا گیا۔ لیکن سرحد بند ہونے کی وجہ سے ان افراد کو پولیس کسٹڈی میں دے دیا گیا ہے۔ سرحد کھلنے کے بعد انہیں افغان حکام کے حوالے کیا جائے گا۔
دوسری جانب پشاور ہائی کورٹ نے افغان مہاجرین کو شہریت دینے سے متعلق 120 مقدمات کو یکم دسمبر تک موخر کر دیا ہے اور ان خاندانوں کی گرفتاری اور بے دخلی کو یکم دسمبر تک روک دیا ہے۔ پشاور ہائی کورٹ نے گزشتہ روز افغانوں کی بیویوں اور بچوں سے متعلق 5 مقدمات وفاقی وزارت داخلہ کو ارسال کیے۔ عدالت نے جب مقدمات کی سماعت کی تو درخواست گزاروں کے وکیل سیف اللہ محب نے بتایا کہ پاکستانی خاتون سے شادی کے بعد شوہر شہریت کا حقدار ہے۔ لہٰذا انہیں پاکستانی کارڈز جاری کیا جائے۔ بین الاقوامی اور پاکستانی قانون درخواست گزاروں کے موقف کی تائید کرتا ہے۔
جبکہ وہ پاکستانی حقوق کے حقدار ہیں۔ پی او سی کارڈز ہولڈر انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے بھی اہل ہیں۔ عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو عدالت کی معاونت کا حکم دیتے ہوئے مقدمات کی سماعت یکم دسمبر تک ملتوی کر دی۔ اس طرح پشاور ہائی کورٹ میں دیگر مقدمات کا فیصلہ بھی سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں کے فیصلوں کے مطابق کیا جائے گا۔ ’’امت‘‘ کو ذرائع نے بتایا کہ جعلی شناختی کارڈز بنانے والے افغان شہریوں کے خلاف بھی کارروائی کا آغاز کیا جارہا ہے اور ان افسران کیخلاف بھی کارروائی ہوگی۔ جنہوں نے کارڈز بنانے میں ان کی معاونت کی ہے۔