اسلام آباد: عام انتخابات کی تاریخ سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللّٰہ نے اپنا اضافی نوٹ جاری کر دیا۔ جسٹس اطہر من اللّٰہ کا اضافی نوٹ 4 صفحات پر مشتمل ہے، اضافی نوٹ کے مطابق الیکشن کمیشن اور صدرنے 8 فروری کی تاریخ دے کر خود کو آئینی خلاف ورزی کا مرتکب ٹھہرایا۔
جسٹس اطہر من اللہ کے جاری اضافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ووٹرز کو انتخابی عمل سے باہر رکھنا بنیادی حقوق کے منافی ہے، خلاف آئین نگراں حکومتوں کے ذریعے امور چلائے جارہے ہیں، مقررہ وقت میں انتخابات آئینی تقاضا ہے، انتخابات نہ کروا کرعوام کےحقوق کی خلاف ورزی ثابت ہوچکی، 12 کروڑ 56 لاکھ 26 ہزار 390 رجسٹرڈ ووٹرز کو حق سے محروم رکھا گیا۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد عام انتخابات 7 نومبر تک ہونا آئینی تقاضہ ہے، انتخابات کی تاریخ دینا آرٹیکل 48 شق 5 کے تحت صدر مملکت کا اختیار ہے، یہ یقینی بنانا صدر مملکت کی ذمہ داری تھی کہ پاکستان کی عوام اپنے ووٹ کے حق سے 90 دن سے زیادہ محروم نہ رہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن اور صدر نے 8 فروری کی تاریخ دے کر خود کو آئینی خلاف ورزی کا مرتکب ٹھہرایا، 90 روز میں انتخابات نہ کرنے کی آئینی کی خلاف ورزی اتنی سنگین ہے کہ اس کا کوئی علاج ممکن نہیں، اگر صدر مملکت یا گورنر انتخابات کی تاریخ دینے کی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کر رہے تو الیکشن کمیشن کو اپنا کردار ادا کرنا تھا۔
اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کو آئین بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تھا، صدر مملکت اور گورنرز کو اپنے منصب کے مطابق نیوٹرل رہنا چاہیئے، الیکشن کمیشن صدر یا گورنرز کے ایکشن نہ لینے پر خاموش تماشائی نہیں بن سکتا، انتخابات میں 90 دن سے اوپر ایک بھی دن کی تاخیر سنگین آئینی خلاف ورزی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئینی خلاف ورزی اب ہو چکی اور اس کو مزید ہونے سے روکا بھی نہیں جا سکتا، انتخابات کی تاریخ دینے میں صدر اورالیکشن کمیشن نے اپنی ذمے داری نہیں نبھائی۔